آبروئے چمن، پاسبان وطن!
ہم غریبوں سے تو کیوں خفا ہو گیا
کچھ بتا تو سہی کیا خطا ہو گئی
اتنی جلدی جو ہم سے جدا ہو گیا
ہند کے دوستوں سے بہت دور تھا
چپ رہا حکم خالق سے مجبور تھا
مسکراتا ہوا خلد کو چل دیا
زندگانی کا وعدہ وفا ہو گیا
وہ خمینی جو حق کا طرفدار تھا
قوم سے اپنی اس کو بہت پیار تھا
جس کی نظروں میں انسان کی قدر تھی
ایک ہی پل میں ہم سے جدا ہو گیا
پورے ایران میں ہر طرف رات تھی
گولہ بارود کی تیز برسات تھی
پاؤں تیرے کبھی ڈگمگائے نہیں
ظلم کا ہر نشانہ خطا ہو گیا
اتنا بیدار تو قوم کو کر گیا
کیسے لکھے یہ ساحل ترا مرثیہ
اہل ایمان جو بیداری ہونے لگے
قبر میں چین سے جاکے تو سو گیا
ساحل سرسوی / ہندوستان