میں تقریباً ایک ڈیڑھ سال سے دہلی میں ہوں۔ ایک روز میں کافی فاصلے پر واقع ایک بازار سے گھر کا کچھ سامان خرید رہا تھا۔ جب دکان دار سامان کو پیک کرنے لگا تو اس سے میں نے کہا کہ اچھی طرح پیک کرنا۔
وہ بت پرست تھا، اس نے کہا: کیوں؟ کہاں جانا ہے؟
میں نے کہا: ملک سے باہر جا رہا ہوں۔
اس نے پوچھا: کہاں؟
میں نے جواب دیا: ایران۔
فوراً کہا: وہی لوگ جو امریکہ کے خلاف لڑتے ہیں؟!
جواب میں ہاں کہہ کر کہا: مگر ان کے اختلاف کا تم سے کیا تعلق؟
حق بجانب کہا: کیوں نہیں، ہم سے بہت ربط ہے۔ کیونکہ آخرکار ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایسا ملک ہے، جس نے امریکہ کے خلاف زبان کھولنے کی جرات کی ہے۔
جب کسی ملک کا صدر اقوام متحدہ میں آ کر امریکہ اور اس کے جرائم کے خلاف زبان کھولتا ہے تو ہمیں خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ ایران کا انقلاب ہمارے لئے باعث فخر ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایران و عراق کی جنگ کیا، ایک دن ایسا بھی آئےگا، جب ایران امریکہ کو بھی شکست دیدےگا۔
کتاب "من مدیر جلسہ ام؛ خاطرات فعالان فرھنگی از فتنہ 88"؛ تالیف رحیم مخدومی، صفحہ 131