امام خمینی(ره)  کی طرف سے ارمنی شہید کوتحفہ

امام خمینی(ره) کی طرف سے ارمنی شہید کوتحفہ

جب نوریک چھٹی پر آیا اور کہا کہ میدان جنگ میں میں سیمنٹ ختم ہو گی اور اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے میں نے بیس بیگ سیمنٹ خرید کر ارامنہ کی خلیفہ گرائی کونسل کے نام سے بھیج دی

شہید بابا خانیانس دس اردیبہشت 1342 کو پیدا ہوئے اور 13 خرداد 1367 کو شرہانی میں شہید ہوئے شہید نوریک کے بڑے بھائی زوریک ان سے ہم نے چاہا کہ اپنے بھائی شہید باباخانیانس کی کچھ حسین یادوں کے بارے میں توضیح دیں مگر ان کا کہنا باباخانیانس کے ساتھ ہمارا زندگی گزارنا کوئی یادگار نہیں بلکہ وہ ہمارے دل کا ایک حصہ تھا وہ جس دن سے دنیا میں آئے اس دن سے شاید دوسروں اور پڑوسیوں کے لئےایک یادگار ہو لیکن ماں اور دوسرے قریبیوں کے لئے وہ دل کا ایک حصہ تھا انھوں نے بڑے دکھ اور درد سے بتایا کہ جب نوریک شہید ہوا 25 سال کا تھا وہ تئیس سال کی عمر میں رضاکارانہ خدمت پر چلا گیا اس کی وجہ یہ تھی کہ جب اس نے دیکھا اس کے سارے دوست چلے گے تو کہنے لگا میں بغیر خدمت کے نہیں رہ سکتاا  جنگ بھی شروع ہوچکی ہے اور سب کا فرض ہے کہ جنگ پر جائیں۔

جس وقت وہ خدمت پر گیا تہران 77 فوجی کمپنی کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے باقی ساتھیوں کو جنگ میں پیش آنے والی ضر  وریات کو پورا کر رہے تھے اس خدمت کے دوران اس کی کارکردگی کی وجہ سے آفیسران متعدد بار اس کی حوصلہ افزائی کی مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ چھٹی پر آیا میں نے اس سے پوچھا کہ کیا حالات ہیں تو بتانے لگا کہ میدان جنگ میں ایک گاڑی خراب ہو گی جس کو ٹھیک کرنا وہاں پر موجود افراد کے لئے ناممکن تھا مجھ سے کہا جاو میں بھی چلا گیا وہاں جا کے دیکھا اس کا پمپ خراب ہے اس کے فنر کو کھولا اور تبدیل کیا تو گاری اسٹارٹ ہو گی اسی وجہ مجھے سو ریال جس پر امام نے دستخط کیا ہوا ہے مجھے انعام میں دیا گیا اور پینتالیس دن کی چھٹی بھی دی ہے۔

زوریک نے اپنے بھائی کی تعریف میں کہا وہ بہت خاموش طبیعت والا اور وظیفہ شناس انسان تھا میری ار بھائی کی بہت ساری یادیں ہیں لیکن میں ان کا نام یادیں نہیں رکھ سکتا میں کہتا ہوں یادیں نہیں بلکہ دل کا ایک حصہ ہیں وہ خصوصیات جو باقی شہدا میں بھی موجود تھیں شاید ان کو اس طرح بیان کر سکتاہوں جو بھی یہ کہتا ہے کہ ملک کا دفاع کرنا ضروری ہے اور اگر کوئی حملہ کرے تو اپنے ملک کی ساری زمین کا دفاع کرنا چاہیے لیکن ہر کوئی اپنی ساری زندگی کو اس راہ میں قربان نہیں کر سکتا جو بھی ملک کے دفاع کے لئے فرنٹ پر لڑنے کے لئے گیا جاتنا تھا کہ ممکن ہے شہید ہو جائے اگر آج بھی کوئی ایسا وقت آئے میں بھی سب کچھ چھوڑ کر اپنے ملک کے دفاع کے لئے جاوں گا۔


ای میل کریں