محفل رندان

محفل رندان

معتکف رہتا ہوں اس پردہ نشیں کے در پر! // شاید اک غزہ کرے قطرے کو دریا آئیں!

وہ بھی دن آئےکہ اس کوچہ کی میں خاک بنوں

جان دے کر بھی اسی چہرے کا دیوانہ رہوں!

روح افزا جو ملے جام سخی ہاتھوں سے!

اس کی زُلفوں کا بنوں قیدی کوئی غم نہ کروں

سر مرا اسکے ہی قدموں میں دَم مرگ رہے!

تاکہ میں حشر تک اس کی ہی خوشبو سونگھوں

بن کے اس شمع کا پروانہ جلوں ساری عمر!

رُخ روشن میں شرابی کی طرح ڈوب رہوں

ایسا اک دن تو کبھی محفل ِ رنداں میں بھی آئے

اس کے سرار کا مستی میں خزینہ میں بنوں!

میرا یوسف سر ِ بالیں نہیں آتا ہے اگر!

اس کی خوشبو سے میں یعقوب صفت مست رہوں

تیرے کوچے کے سوا دوست کوئی جاہی نہیں!

آستاں کا ترے سودا ہے فقط سر میں مکیں!

مسجد و دیر میں بت خانے میں میخانے میں!

سر ٹپختاوں تری شکل نظر آئے کہیں!

مکتب و شیخ کی صحبت میں نہ مشکل ہوئی حل

نگہ الطاف ہو مشکل مری آسان ترین!

ما و من صوفی و ملا کے تفرقے میں سبھی!

جلوہ فرما کہ من و ما کے مٹیں دل سے نگیں

نیستی میری عدم تو نہیں ہستی ہے عدم!

ہیچ سے بھی میں فرو مایہ ہوں کر اپنے قریں!

دل جلوں، صوفیوں اور اہل طرب میں بھی رہا!

دیکھا میں نے نہ کبھی شاد کوئی بزم نشیں!

معتکف رہتا ہوں اس پردہ نشیں کے در پر!

شاید اک غزہ کرے قطرے کو دریا آئیں!

 

پاکستان سے سید فیضی

ای میل کریں