اگر بہت سے مکاتب فکر ایسے ہیں جو انسان کی تربیت کے سلسلے میں ارادہ کو کو ئی اہمیت نہیں دیتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اس میں وراثت اور ماحول سب سے زیادہ موثر ہیں لیکن ان لوگوں کے نظریئے کے بر خلاف امام خمینی(ره) کا نظریہ یہ تھا کہ تعلیم وتربیت کے سلسلے میں خود انسان کا پختہ ارادہ اصل ہے۔ آپ فرماتے ہیں :
اے عزیز! تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس عالم میں قوی وپختہ ارادہ بہت ضروری اور کارگر ہے۔۔۔ جب تک انسان کا ارادہ پختہ وقوی نہ ہوگا وہ جنتی نہیں بن سکے گا اور نہ ہی اس کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوگا۔( شرح چہل حدیث، ص ۱۲۵ )
اگر ارادہ تام وتمام ہو جائے اور عزم، قوی ومحکم ہو جائے تو ملک بدن اور اس کی ظاہری وباطنی قوتوں کی مثال فرشتگان الٰہی جیسی ہو جائے گی جو خدا کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو بھی حکم دیتا ہے اطاعت کرتے ہیں اور جس سے روکتا ہے اس سے باز آتے ہیں جب کہ انہیں نہ تو کوئی تکلف ہو تا ہے اور نہ کوئی زحمت۔( شرح چہل حدیث، ص ۱۲۵)
انسان کی متعدد خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ تربیت کو قبول کرتا ہے کیونکہ انسان دوسرے تمام موجودات کے بر خلاف ارادہ واختیار رکھتا ہے لہٰذا تربیت کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور در حقیقت انبیاء کی بعثت کی بنیاد ہی انسان کی تربیت پر تھی پس اگر انسان کے اندر تربیت کو قبول کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہوتی تو خدا وند عالم انسان کی تربیت کیلئے انبیاء (ع) کو مبعوث نہ فرماتا۔
امام خمینی (ره)نے انبیاء (ع) کی پیروی کرتے ہوئے جس بات کو بہت زیادہ اہمیت دی وہ یہ ہے کہ انسان تربیت کو قبول کرتا ہے اور یہ بات انسان کی دیگر ضروریات کے عرض میں نہیں ہے کہ خاص اوقات سے مخصوص ہو بلکہ صحیح تربیت وہدایت آدمی کے ’’ انسان بننے ‘‘ کے مقدمات فراہم کرتی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں :
عالم کی بنیاد انسان کی تربیت پر ہے انسان تمام موجودات کا نچوڑ اور سارے عالم کاخلاصہ ہے انبیاء اس لئے آئے تھے کہ اس بالقوۃ عصارہ کو بالفعل مرحلے تک پہنچا دیں ۔( صحیفہ امام، ج ۱۴، ص ۱۵۳)
سارے انبیاء کے دنیا میں آنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس بشر کی تربیت کریں کیونکہ تربیت پانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا درجہ تمام حیوانات سے بلند ہے انبیاء (ع) تربیت کرنے آئے تھے۔( صحیفہ امام، ج ۴، ص ۱۸۹)
خدائے تبارک وتعالیٰ کی جانب سے بشر پر یہ لطف ہے کہ وہ تربیت کی صلاحیت رکھتا ہے۔( صحیفہ امام، ج ۴، ص ۱۸۹)