کارآمد اور پائیدار حکومت کے عوامل میں سے ایک معاشرے میں عدالت کا استقرار اور اجرا بھی ہے۔
امام علی (ع) عدالت کو عوام کا اعتماد جلب کرنے اور حکومتوں کی توسیع و پائیداری کا بہترین وسیلہ جانتے ہیں اور فرماتے ہیں:
[استعمل العدل، واحذر العسف والحیف، فانّ العسف یدعو بالجلأ والحیف یدعو الی السیف] ‘‘عدل کو استعمال کرو اور بیجا دباو اور ظلم سے ہوشیار رہو کیوںکہ دباو عوام کو غریب الوطنی پر آمادہ کردےگا اور ظلم تلوار اٹھانے پر مجبور کردےگا۔ ‘‘
(نہج البلاغہ حکمت ۴۷۶)
اسی لئے امام راحل(رح) بھی عادلانہ اجتماعی نظام قائم کرنے کو انبیاء اور ائمہ (ع) کی حکومت کے اہم ترین اہداف میں سے جانتے ہیں اور آیت کریمہ: ’’ ولقد ارسلنا بالبینات وانزلنا معہم الکتاب و المیزان لیقوم الناس بالقسط ‘‘ سے استناد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ بعثتِ انبیاء(ع)کا کلی ہدف عوامی زندگی کا، عادلانہ اجتماعی روابط کی بنیاد پر نظم اور ترتیب سے آراستہ ہونا، آدمی کی پشت سیدہی ہونا ہے اور یہ حکومت کے قیام اور احکام کے اجرا کے بغیر امکان پذیر نہیں، چاہے نبی (ص) خود حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جیسے رسول اعظم(ص) اور چاہے نبی کے پیرو اور مرید کو حکومت بنانے اور عادلانہ اجتماعی نظام قائم کرنے کی توفیق ملے۔ ‘‘
اس بناپر امام (رح) کی نظر میں اُمتوں اور عوام میں عدالت کو توسیع دینا انبیاء (ع) کی ذمہ داریوں میں سے تھا اور درحقیقت ان کےلیے حکومت کا قیام اور حکومت کے زمام کو لگام دینا اسی خاطر بہت اہمیت کی حامل تھی کہ ’’ عدل کی حکومت قائم کریں اور اجتماعی عدالت کو عوام کے درمیان تطبیق اور عام کریں۔ ‘‘
(امام خمینی؛ ولایت فقیہ؛ ص۵۹)
امام راحل(رح) اسی فکر و نظریہ کی بنیاد پر عصر غیبت میں بھی اسلامی جوامع میں موجود حکومتوں کو عوام کے ساتھ عادلانہ سلوک روا رکھنے کی تاکید اور عوام پر ظلم اور زیادتی کرنے کی خاطر سخت مورد تنقید قرار دیتے ہیں اور آیتِ مبارکہ: ’’ لاینال عہد الظالمین‘‘ کی اساس پر معتقد ہیں کہ موجودہ حکومتیں اسلامی معاشروں پر حکومت کرنے کے بالکل سزاور نہیں ہیں۔ آپ کی نظر میں صرف وہی لوگ مسلمانوں پر حکومت کرنے کے شایستہ اور ذمہ دار ہیں جو عوام کے ساتھ معاشرت، معاملہ، فیصلے، داد رسی اور عام درآمدات کی تقسیم میں امام علی (ع) کی مانند عدالت کے مطابق عمل کریں۔
(ولایت فقیہ)
چنانچہ امام(رح) اسلامی حکومت کو پہلوی طاغوتی حکومت کی جگہ عدل اور عدالت کی حکومت کے طورپر تعارف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ جمہوری اسلامی میں اسلامی عدل زندہ و جاری اور پوری قوم پر سایہ افکن ہے۔‘‘
(صحیفہ امام؛ ج۶، ص۵۲۵)
اسی نظریہ اور فکر کو عملی جامہ پہنانے کےلئے جمہوری اسلامی کے استقرار کے بعد اسلامی حکومت کے زمامداراں کو ظالمانہ سلوک و برتاو سے ہوشیار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ ایسا نہ ہو کہ ہتھیار کو ظالم سے لے کر خود ظلم و زیادتی کرنا شروع کریں، سابق حکومت اپنے اقدامات اور کارناموں کی وجہ سے برکنار و منفور اور ملعون واقع ہوئی ۔۔۔ نہ کسی شخص کی خاطر ۔۔۔ اس کے اعمال اور سلوک سبب بنا تاکہ عوام کو خود سے دور اور گمراہ ہوجائے اور عوام بھی گمراہی و تباہی کے ساتھ زیادہ نہیں چل سکتی۔ ‘‘
(صحیفہ امام؛ ج۱۳، ص۴۲)
اس بناپر، آپ جمہوری اسلامی کے حکمرانوں کو عوام کے ساتھ عادلانہ برتاو کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ اگر ہم نے الہی عدل کے ساتھ سلوک کیا، اللہ تبارک و تعالٰی ہمیں بہت عظیم رحمت میں داخل اور عطا کرےگا اور اگر ہم نے عوام کے ساتھ عدل الٰہی کے مطابق برتاو نہیں کیا وہاں اللہ تعالی ہمارے ساتھ اپنے عدل کے ساتھ حساب اور برتاو کرےگا، جس کے سنگینی سے کوئی بھی خود کو باہر نہیں نکال سکتا۔ ‘‘
(صحیفہ امام؛ ج۱۳، ص۴۰۲)
ایضاً: یہی عوام، یہیں پر ہمارا کام تمام کردیں گی۔
(درجستجو راہ در کلام امام؛ ص۳۴۷)
جبکہ اگر حکمراں جس طرح اسلام نے کہا ہے برتاو کریں اور عوام پر ظلم و زیادتی نہ کریں اور عدل الٰہی کو اُن پر جاری و نافذ کریں، پوری قوم حکومت کے حامی اور پشت پناہ بنیں گی۔‘‘
(صحیفہ امام؛ ج۹، ص۱۲۰)
والسلام علی عبادہ الصالحین
جاری ہے