خبرگان رہبری، ولایت فقیہ کا پشت پناہ ہونے کی سند ہے

خبرگان رہبری، ولایت فقیہ کا پشت پناہ ہونے کی سند ہے

اگر آپ لوگ میں رہبری پر نظارت رکھنے کی شہامت اور شجاعت نہیں ہے تو وہاں سے اُٹھ جائیں، مجلس کو چھوڑ دیں!

جماران کے مطابق، حجۃ الاسلام کاظم قاضی زادہ نے "امام خمینی اور گارڈین کونسل؛ امتیازات اور ذمہ داریاں" کی نشست میں اظہار رائے کی: سنہ 58 اور سنہ 68 کے آئین میں نظرثانی کے بعد بنیادی فرق ہے، لیکن گارڈین کونسل اور رہبری کے بارے میں دونوں آئین میں کوئی تناسب نہیں پایا جاتا، یعنی سنہ 68 میں نظرثانی کرنے کے بعد، ہمارا سامنا خاص طورسے رہبری کے اختیارات میں اضافہ اور شرایط کی کمی سے ہوا اور اصل مرجعیت کی شرط بالکل ختم کردی گئی، لیکن اختیارات کے حوالے سے، رہبر کے اختیارات بہت بڑھ گئے۔

آپ نے خبرگان کے بارے میں بھی کہا: جبکہ سنہ 58 اور 68 میں گارڈین کونسل کےلئے امیدوار نامزد ہونے والوں کی شرایط میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ 

حوزہ کے اُستاد نے مزید کہا: البتہ میں اس بات کا معتقد ہوں کہ گارڈین کونسل جسے رہبری کا حامی اور پشت پناہ ہونا چاہیئے اور نظام، اسلامی ہونے کی ایک سند ہے، ایک اعلیٰ اور مضبوط مجلس ہونی چاہیئے۔ لیکن میری رائے میں موجودہ گارڈین کونسل یا بعد والی مجلس کو کوئی ایسی فکر، لائحہ عمل طے کرنا چاہیئے کہ جس کے تحت مختلف شعبہ جات اور میدانوں جیسے دفاعی، انتظامیہ، سیاسی اور مدیریت میں سرگرم اعلی، بہترین، زبردست ماہرین اور محققین کے ساتھ کونسل منتخب ہو۔

قاضی زادہ نے گارڈین کونسل کی نظارتی ذمہ داری کے بارے میں مزید کہا: یہ بات بالکل واضح ہےکہ مجلس خبرگان کی اصل اور اہم ذمہ داری رہبری کا تعین اور انتخاب ہے جو کئی سالوں میں ایک بار اور اللہ تعالی کی سنت اور انسانوں کی طبیعی عمر کے تحت واقع ہوتا ہے۔

لیکن اس کے علاوہ، نظارت کی ذمہ داری گارڈین کونسل کےلئے بہت اہم اور ضروری ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ گارڈین کونسل کے مذاکراتی آئین کے مطابق خفیہ طور پر منعقد ہونے چاہیئے۔ لیکن جب میں مذاکرات کو پڑھ رہا تھا بزرگ علماء میں سے ایک گارڈین کونسل کو ڈراتے ہوئے کہہ رہا تھا: اگر آپ لوگ میں رہبری پر نظارت رکھنے کی شہامت اور شجاعت نہیں ہے تو وہاں سے اُٹھ جائیں، مجلس کو چھوڑ دیں، عوام نے آپ کو  ووٹ دی ہے تاکہ نظارت کا کام کریں اور یہ بزرگ عالم یہ بات سنہ 61 میں، آپ جانتے ہیں کہ اُس دور میں امام(رح) کی طاقت اور اقتدار کیسی تھی، بیان کرتا تھا۔ 

انھوں نے مزید کہا: میرے خیال میں اگر انہی آئین ناموں کو نشر کیا جاسکے، بہت سی بحثوں کے موضوع کی جگہ خود بخود ختم ہوجائےگی، کیونکہ اس طرح سب کےلئے واضح و روشن ہوگا کہ اس نظام کے عظیم شخصیات کی نگاہ و نظر میں نظارت کا قانون کیا امتیازات اور خصوصیات کے حامل ہے۔

ماخذ: جماران خبررساں ویب سائٹ

ای میل کریں