خاموش سمندر میں طوفان اٹھایا ہے
سوئی ہوئی ملّت کو یہ کس نے جگایا ہے
جو قصر ضلالت تھا وہ کس نے گرایا ہے
پھر سوئے حرم کس نے مُسلم کو بُلایا ہے
وہ شخص خمینی ہے وہ حرفِ صداقت ہے
انصاف کا داعی ہے اور جان قیادت ہے
جو قوّتِ باطل ہے حیران ہے ، پریشاں ہے
اسلام کی قوّت سے پھر کفر ہر اساں ہے
جس خون کی وقعت ہے وہ خون ِشہیداں ہے
میدان نہ جو مار ے وہ کیسا مسلماں ہے
ہر بندہ مومن کی میراث شہادت ہے
سجدوں کے تَقدس سے بڑھ کر یہ عبادت ہے
ایراں کی قیادت نے تاثیر صفا بخشی
احساس کے صحرا کو پھر تازہ ہوا بخشی
محرومِ تمنّا کو جینے کی ادا بخشی
پابندِ سلاسل کو رفتارِ صبا بخشی
جس شخص کی دنیا پر روحانی حکومت ہے
صد شُکر کہ وہ مرد درویش سلامت ہے
ہر ظلم کے نقشے کو دُنیاسے مٹانا ہے
جتنے ہیں صنم خانے اب اُن کو گرانا ہے
اے قصر ستم تیری بنیاد ہلانا ہے
مُرجھایا ہوا غنچہ خوں د ے کے کھلانا ہے
مظلوم زمانہ سے اِس دل کو محبت ہے
اسلام ہمارا تو آئینِ شرافت ہے
مقصود جعفری (پاکستان)