جس دن صبح طے تھا کہ کا وزیر خارجہ ’’ایڈورڈ شورد ناڈزے‘‘، گورباچیف کا جواب لے کر امام کی خدمت میں آئے گا، امام اپنے روزانہ کے معمول کے مطابق ۸ بجے Meeting Room میں آنے کے بجائے ساڑھے آٹھ بچے تشریف لائے۔ روس کا وزیر خارجہ، اسلامی جمہوری ایران کے وزارت خارجہ کے عہدہ داروں کے ساتھ وہاں کھڑا انتظار کرتا رہا۔ آخر کار تقریباً ساڑھے آٹھ بجے، جب امام ؒتشریف لائے تو کسی پر نظر کئے بغیر افراد کے درمیان سے گزرتے ہوئے اپنی ہمیشہ کی جگہ پہ جا کے بیٹھ گئے۔ اس کے بعد روس کا وزیر خارجہ کرسی پہ بیٹھا۔
وہ مشرق کی سپر طاقت کا ایک سیاسی لیڈر اور نمایندہ تھا جس کے چہرے کی صلابت اور اطمینان بھری حرکات وسکنات کے چرچے عالمی اجتماعات سے لے کر مغرب والوں کے بڑے برے ایوانوں تک حتی اخباری رپورٹوں میں بھی عام تھے۔ وہ اس چھوٹے سے معمولی کمرے میں شاید اس کو پہلی مرتبہ ایسا اتفاق پیش آیا ہو کہ جس میں وہ اپنے جوتے اتار کر ایک فرش پہ سپر طاقت کی ترجمانی کرنے کیلئے رسمی میٹنگ میں شریک ہوا ہو اس سادہ لیکن باعظمت ماحول کے سامنے اس کا حال کچھ اس طرح تھا کہ اس کے ہاتھوں میں خوف کا ایک ہلکا سا لرزہ تھا جو گورباچیف کے جواب کو پڑھتے وقت نظر آ رہا تھا۔ وہ جب پہلی دفعہ کرسی پہ بیٹھا تو اس کی حالت غیر تھی جس کا مشاہدہ ان کے پاؤں کے غیر متعادل طورپر رکھنے سے ہو رہا تھا۔ یہ کیفیت جلسہ کے آخری لمحات تک اس کے اندر نظر آ رہی تھی۔ سوائے سر اور ہاتھوں کی حرکت کے اس کا باقی سارا جسم اس پوری مدت میں مجسمہ کی طرح جامد اور بے حرکت ٹکا ہوا تھا۔
وہ مترجم بھی جو بقول اہل خبرہ کے سب جگہ اپنی کامل مہارت سے روسی زبان کے ترجمہ کیلئے بلبل سے تعبیر کیا جاتا تھا، وہ بھی یہاں پر کوئی بھی جملہ بغیر لکنت (وہ کوشش کر رہا تھا کہ اپنی اس کمزوری کو مصنوعی کھانسی اور سینہ کی صفائی سے چھپائے) کے ادا نہ کرسکا۔ گورباچیف کے پیغام کے بعد امام ؒ نے بغیر تامل کے تقریباً ایک منٹ میں تین حصوں پرمشتمل اپنی بات کی صراحت کر دی، ہر طرح کی بناوٹ سے دور رہ کر یہ کہا کہ گورباچیف نے میرے خط کا جو بنیادی نکتہ تھا اس پر توجہ نہیں دی ہے۔ اس پر افسوس کا اظہار کیا۔ اس کے بعد جب مترجم نے تیسرے حصے کا ترجمہ شروع کیا تو امام ؒ کھڑے ہو کر اندر چلے گئے۔ چلنے میں ایسی غیر معمولی تیز رفتاری دکھائی کہ کوئی بھی شخص اپنی جگہ سے ہلنے کی ہمت نہ کر سکا، چہ جائیکہ بوسہ دینے اور مصافحہ کرنے کی گنجائش نکل آتی۔