جس وقت امام ؒ نجف میں مقیم تھے، دریائے اروند کی سرحد کے معاملے میں ایران اور عراق کا اختلاف رونما ہوا۔ بعثی حکومت چاہتی تھی کہ حوزہ علمیہ نجف کے علماء سے ایران کی ظالم حکومت کے خلاف کوئی تحریری دستاویز لکھوا لے جائے۔ وہ اپنے طورپر خیال کرتے تھے کہ امام چونکہ وطن بدر ہیں اور شاہ کی حکومت کے بہت سخت مخالف ہیں ۔ لہذا وہ ضرور شاہ سے انتقام لینے کی خاطر بعثی حکومت کے حق میں ایک بڑی عمدہ تحریر لکھ دیں گے۔ لیکن امام ؒ نے کربلا کے گورنر، ساواک کے سربراہ اور نجف کے ناظم کے ساتھ ایک میٹنگ میں بہت ہی واضح الفاظ میں ان سے کہہ دیا: ’’حکومت ایران نے غلط کیا تو تم نے بھی غلط کیا ہے۔ یہ مسئلہ شیعہ مراجع اور حوزہ سے مربوط ہی نہیں ہے کہ وہ تمہارے لیے کوئی تحریر لکھ دیں ۔ تم خود آپس میں مل بیٹھ کر حل کرو‘‘ امام ؒ کے اس تند رویے کے بعد بعث کے ایجنٹوں کو غصہ آگیا۔ ان میں سے ایک نے اسی اجلاس میں کہا: کل ہم ان کو نجف سے نکال دیں گے! یہ بات جب امام ؒ کے کان سے ٹکرائی تو فرمایا: ’’کیا یہ سمجھتے ہو کہ میں یہاں رہنے سے بہت خوش ہوں ۔ جس جگہ اسلام علی الاعلان پائمال ہو رہا ہو، اسلام کے مقدسات کو نظر انداز کیا جا رہا ہو اور اسلام کی حرمت کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہو وہ کیا رہنے کی جگہ ہوسکتی ہے؟ یہ لو، میرا پاسپورٹ جہاں چاہتے ہو بھیج دو۔ جہاں بھی جاؤں گا وہ جگہ یہاں سے بہتر ہوگی۔ مجھے اس جگہ اطمینان ہوگا جہاں مسلمانوں کو سکون میسر ہو۔ مجھے یہاں کون سی خوشی ہے‘‘ اس صورتحال کو دیکھ کر بعض مراجع بعثی حکومت کے کارندوں کے ساتھ امام کے اس رویے سے بہت پریشان اور ناخوش تھے۔ ایسا نہ ہو کہ کل حکومت کی مشینری مسلح لشکر بھیج کر نجف اشرف پہ یورش کرائے اور اس شہر کو تباہ وبرباد کر دے۔