جماران: عصر حاضر میں لوگوں کے ذہنوں میں ابھرنے والے سوالات میں سے ایک سوال جو پیچیدہ ہونے کے ساتھ کافی حد تک اھمیت کاحامل ہے جس کا معقول و مدلل جواب دینے کیلئے ماہرین کو تحقیق کرنے کی ضرورت ہے، یہ ہے کہ وہ کونسی رکاوٹیں ہے جس کی وجہ سے مختلف ادیان کے پیروکار ایک ساتھ پرامن زندگی نہیں گزار سکتے؟
ول ڈیورنٹ اپنی کتاب «تاریخ تمدن» میں لکھتے ہیں سپین کے مشہور شہر قرطبہ کے چرچ میں جمعہ کے دن مسلمان نماز جمعہ ادا کیا کرتے تھے اور ہفتہ کے دن عیسائی حضرات اسی چرچ میں عبادت کرتے تھے!!۔
بہارت کے شہر حیدر آباد ڈکن کے ایک اسکوائر میں واقع مندر کے چار ستونوں میں سے ایک پر ہندو اور باقی تین پر مسلمانوں کا قبضہ ہے اور یہ ایک دوسرے کے حدود میں قدم نہیں رکھ سکتے، ایک دوسرے کی حدود میں قدم رکھنے کا مطلب موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، پاکستان کے مسلمان، شیعہ اور سنی میں تقسیم ہوکر ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں اور خود شیعوں کے مختلف گروہوں جیسے اخباری اور اصولیوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں خونریز واقعات کی داستانیں ہمیں تاریخ میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔
اسی طرح ایک دور میں عیسائی اور یہودی آپس میں دست بہ گریباں تھے جس کی وجہ سے انکے درمیان قتل و غارتگری کا بازار گرم تھا۔ آخر یہ سب کچھ کیوں؟
عام طور پر آسمانی ادیان کے پیروکاروں اور مسلمانوں اور خاص طور پر شیعہ مسلک کی پیروی کرنے والے اور ان میں خصوصیت کے ساتھ ہمارے بعض دوستوں کا یہ موقف کہ انکا ہر کام صحیح اور درست ہے، ان کی عملی صوابدید اور تصور مطلق کا شاخسانہ ہے۔ اس میں دوسرا رخ مدمقابل میں مطلق رویہ کا پایا جانا ہے جو ہماری ذہنی آفت سے وجود میں آتا ہے۔
مثال کے طور پر جب ہم کچھ ہندوں کے ہاتھوں کسی مسلمان کو قتل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو فورا قاعدہ کلیہ کی صورت میں اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کے جانی دشمن اور انکے قاتل ہیں جس کے نتیجے میں یہ تصور ہمارے ذہن میں بیٹھ جاتاہے کہ جہاں کہیں بھی ہمیں ہندو نظر آئے اسے جان سے مار دینا چاہئے۔ جبکہ یہ تصور غلط ہے اور اسی غلط تصور سے داعش اور داعش جیسے دوسرے تکفیری دہشتگرد گروہ جنم لیتے ہیں۔