ذکر کیا پھولوں کا ہے کانٹوں پہ بھی رنگِ خزاں !
آگ کی بارش ہوئی ساوَن میں یارب الاماں
پتـہ پتـہ کرتاہے ماتَم ،ہیں کلیاں مضطرب
گل ہیں سب پژمردہ پژمردہ کہاں ہے یاغباں
التہاب ِدل بڑھا اتنا خموشی چھاگئی !
لمحہ بھر کوہوگئے ساکت زمین وآسماں !
ہرنفس کےساتھ وابستہ ہے اب دل کی خلش
ڈس رہی ہیں مجھکو رہ رہ کر مری تنہائیاں
ڈھونڈتا پھرتاہوں ملٹاہی نہیں کوئی سراغ !
جانے اوج ِقرب میں ہوگا کہاں اس کامکاں
مَر بھی جاؤں گر تواب ممکن نہیں دیدار ِیار
ہے تصور سےمِرے مافوق سنگ آستاں
وہ تھا اِک ابر ِکرم برسا اور رُخصت ہوگیا
مجھ کو صحرامیں لئے پھرتی ہیں تشنہ کامیاں
عبدیت کی حدمیں تھامعبود سے اتناقریب
کرتے تھے تعظیم اس بندے کی سب اہل جھاں
ایک عالَم جل رہاہے آج غم کی دھوپ میں
حق میں مظلوموں کی تھا وہ اِک سائباں
جادہ اس کا جادہءحق دین،دین ِاحمدی
منبع ِاسرارحق تھی ذات اس کی بے گماں
وہ تھا تنہا انبیأ و اوصیأ کی یادگار !!
ہوگئی تھیں جمع اک پیکر میں کتنی ہستیاں !
دے کے دعوتِ عالم الحاد کو اسلام کی
کردیا ثابت ہے زندہ ’’روحِ‘‘ ختم مرسلاں
فتوی بروقت سے کچھ یوں کیا دیں کا دفاع
رہ گئے دشمن فقط دانتوں میں دے کر انگلیاں
ہاتھ میں مقراض الا اللہ لے کر یوں اٹھا
جبر و استبداد کی اس نے اڑادیں دھجّیاں!
کر کے وہ اسلام کا احیأ گیا ہے مطمئن !!
اس کا خط ہے حدّ فاصل خیر و شر کے درمیاں
سورۂ کوثر کی تفسیر مصفا بن گیا !!
فاطمہؑ کی نسل کا اونچا کیا نام و نشاں
جز شہِ ابرار نفس مطمئن کوئی نہ تھا
ہاں مگر اس میں نظر آئی ہیں اس کی جھلکیاں
مر کے بھی وہ مر نہیں سکتا شہید ونکی قسم !
اس کے قدموں میں ملی ہم کو حیات جاوداں
سب غموں کو محوکرتا ہے شہِ والا کا غم
کربلا تک آکے تھم جاتا ہے ہر ایک کارواں
نصرتِ شہ نے عطا کی اس کو وہ آفاقیت !
ہیں سیہ پوش اے ولی اس غم میں ساری بستیاں
سید ولی الحسن رضوی (ہندوستان)