ایک دفعہ امام کے ساتھ گھر کے باغیچہ میں نہل رہی تھی کہ انہوں نے مجھ سے کہا: ’’بتا کہ ان درختوں میں سے کون سا خوبصورت ہے؟‘‘ میں ابھی تک اس بات کی طرف متوجہ نہیں تھی کہ مثلاً ایک درخت کی شاخ میں ٹہنیوں کا ہونا درخت کی خاص خوبصورتی کا سبب ہے۔ اس لیے میں نے کہا: یہ درخت؟
امام نے کہا: ’’اَلَل ٹپ نہ کہو۔ اس درخت کی زیبائی پر تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟ جاؤ، دو تین دن تک سوچو‘‘ میں نے بھی مذاق میں کہا: کیونکہ یہ درخت زیادہ ہرا بھرا ہے۔ امام نے کہا: ’’نہیں ! جاؤ سوچو کہ ایک درخت کی خوبصورتی کس چیز میں ہے۔ جاؤ دیکھو ٹہنی اور شاخوں کی بناوٹ کس انداز کی ہو تو درخت خوبصورت ہوتا ہے۔ درخت کا تنا کس شکل کا ہو۔ اس کے پتے ٹہنیوں پر کس طرح نکلے ہیں ۔ درخت کا سایہ کیسا ہے۔۔۔ ‘‘ یہ سب ایک ایک کر کے کہتے تھے اور مجھے بتاتے جاتے تھے۔بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ دیکھو اس باغ یا باغیچہ میں درخت کی ترکیب کس انداز کی ہے۔ اس کا جزء جزء کیسا ہے‘‘۔ ایک اور درخت صحن کے ایک طرف کونے میں تھا۔ مغرب سے آدھا گھنٹہ پہلے میں امام کے ہمراہ صحن میں ٹہل رہی تھی۔ امام نے کہا: ’’فاطمی! تم نہیں ہو صبح سورج نکلنے سے پہلے میں ٹہلتا ہوں ۔ تمہیں نہیں معلوم یہ درخت کتنا خوبصورت ہے اور جب سورج اس طرف سے درخت کے اوپر آتا ہے تو درخت کا یہ حصہ اچھا خاصا خوبصورت منظر پیش کرتا ہے‘‘۔