سن ۱۳۵۲ ھ ش (۱۹۷۳ء) کو میں اپنے ایک یا دو سال کے بچے ’’حاج حسین‘‘ کو لے کر حاج سید احمد کے ہمراہ نجف گئی۔ فطری بات ہے کہ اس پردیسی اور جلا وطنی کے دور میں ہمارا وہاں جانا امام اور ان کی زوجہ محترمہ کیلئے باعث مسرت تھا۔ طے پایا کہ ہم دو مہینے نجف میں رکیں گے۔ اس کے بعد واپس ایران چلے آئیں گے۔ اس وقت طاغوتی ادارہ اوقاف ہی حج کے امور انجام دیا کرتا تھا اور بہت سارے جن میں سے ایک حاج سید احمد بھی تھے جو ان حالات میں ایران سے حج پر جانے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اس لیے اس سفر کیلئے سب سے اچھا موقع عراق سے جانا ہی تھا۔ اس کی چند خوبیاں تھیں ۔ ان میں سے ایک یہ کہ حج شاہی ادارہ اوقاف کے دائرے سے باہر رہ کر انجام پاتا۔ اس کے علاوہ سفر کا خرچ بھی بہت کم آتا، نیز امام کی زوجہ بھی حج کا بہت شوق رکھتی تھیں وہ بھی اپنے بیٹے حاج احمد آقا کے ساتھ چلی جاتیں ۔ ان سب سے بھی اہم بات یہ تھی کہ اس صورت میں نجف میں ہمارا قیام تقریباً ۷، ۸ ماہ ہوجاتا جو کہ اس وقت خود امام اور ان کی زوجہ محترمہ کیلئے خوشی کا باعث تھی۔ لیکن جب سفر کی بات ہوئی تو مسئلہ صرف پیسوں کا تھا جس کیلئے حاج خانم یعنی امام کی اہلیہ نے تجویز پیش کی کہ امام سے قرض لیا جائے۔ یہ ایسا کام تھا کہ جسے نہ میں کہہ سکتی تھی اور نہ حاج سید احمد میں اتنی ہمت تھی کہ وہ امام سے درخواست کرتے۔
ایک دن ہم سب اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے۔ امام کی اہلیہ محترمہ نے کہا کہ احمد اور ان کی اہلیہ مکہ جانا چاہتے ہیں ۔ امام نے کہا: ’’اچھی بات ہے وہ جائیں ‘‘ امام کی اہلیہ نے کہا: آقا! مکہ جانے کیلئے تو پیسہ چاہیے۔ امام نے کہا: ’’جو مکہ جانا چاہتا ہے اس کیلئے پیسہ تو چاہیے۔ اگر پیسہ ہے تو جائے اور اگر نہیں ہیں تو نہ جائیں ‘‘ امام کی اہلیہ نے کہا: آپ ان کو قرض دے دیں ۔ امام نے کہا: ’’میں قرض نہیں دیتا‘‘ یہ جملہ ایک دو دفعہ دھرایا گیا۔ آخر امام کی اہلیہ نے پوچھا کہ کیوں قرض نہیں دیتے؟ امام نے فرمایا: ’’پیسہ میرا تو نہیں ہے اور میں قرض اس کو دیتا ہوں کہ جس کے بارے میں جان لوں کہ واپس کرے گا۔ یہ لوگ کہاں سے واپس کریں گے؟‘‘ امام کی اہلیہ نے دوبارہ کہا: کہ واپس کریں گے۔ امام نے فرمایا: ’’کہاں سے؟‘‘ امام کی اہلیہ بولیں : اگر آپ فاطمہ کا مہریہ دیدیں تو یہ جاسکتے ہیں ۔ یہ گفتگو خاص کر آخری جملہ امام کیلئے بڑا سخت تھا۔ خاص کر جب امام نے پلٹ کے پوچھا: ’’کیا وہ مہریہ کا مطالبہ کر رہی ہے؟ اچھا اگر مطالبہ ہے تو یہ مسئلہ جدا ہے‘‘ میں نے مجبور ہو کر کہہ دیا کہ ایسی بات بالکل نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر حج پہ جانا ہم پر واجب ہو تو اس وقت بہترین موقع ہے۔ (میں اپنے حساب سے چاہتی تھی کہ وجوب حج کے حوالے سے بات کروں ) امام نے فرمایا: ’’اگر تمہارے پاس پیسہ نہیں ہے تو تم مستطیع نہیں ہو اور تم پر حج واجب نہیں ہے‘‘ میں نے کہا کہ جی ہاں ! ایسا ہی ہے اور بات یہاں پر ختم ہوگئی۔
دو تین دن بعد حاج احمد نے اپنی والدہ سے کہا: اماں ! ہم واپس جانا چاہتے ہیں اور سفر کی تیاری شروع کردی۔ ان کی والدہ نے مجبور ہو کر کہا: کوئی بات نہیں ہے۔
ہم نے سفر کے امور اور ایران واپس آنے کی تیاریاں کرنا شروع کر دیں اور اپنے پاسپورٹ آقائے شیخ عبد العلی قرہی کے حوالے کیا۔ اگلے دن کھانے کے دسترخوان پر امام کی اہلیہ نے اداس ہو کر کہا: یہ آخری ہفتہ ہے کہ یہ لوگ ہمارے ساتھ یہاں ہیں ، اگلے ہفتے سے دوبارہ وہی تنہائی شروع ہوجائے گی۔ امام نے فرمایا: ’’کیوں ؟ یہ لوگ ابھی ہیں ‘‘ امام کی اہلیہ نے ناخوشی اور تعجب کے ساتھ کہا: آپ نے تو ان کو قرض دیا نہیں لہذا انہوں نے اپنے پاسپورٹ آقائے شیخ کے سپرد کردئیے ہیں کہ۔۔۔ امام نے مسکرا کر کہا: ’’میں نے شیخ سے کہہ دیا ہے کہ ان کے پاسپورٹ روکے رکھو‘‘ ہم سمجھ گئے کہ امام کی رائے میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ لیکن کہاں سے، نہیں معلوم۔ لیکن یاد آیا کہ حاج احمد نے مجھے بتایا کہ امام نے کہا ہے: ’’اگر مجھے اطمینان ہوجائے کہ تم قرض واپس کر دوگے تو مجھے قرض دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘۔
اب یہ کہ ہم کس طرح اپنا قرض ادا کریں گے؟ میں نے کہا کہ ایران واپس جاتے ہیں اپنا سونا فروخت کریں گے اور پیسہ آقائے پسندیدہ کے حوالے کردیں گے۔ خلاصہ یہ کہ پیسہ لیا اور امام کی اہلیہ کے ساتھ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ سفر میں جو کچھ ہوا یہ ایک طویل داستان ہے۔ لیکن قم واپس پہنچ کر ہم نے فوراً اپنا سونا فروخت کیا اور امام کے قرض کو آقائے پسندیدہ کے حوالے کردیا۔