حضرت آیۃ اللہ! ایک عرصہ سے آپ کی زیارت ودیدار کا مشتاق تها

حضرت آیۃ اللہ! ایک عرصہ سے آپ کی زیارت ودیدار کا مشتاق تها

ایرانی ارمنی عوام اس مملکت سے ہر قسم کی پلیدگی کے خاتمہ کے لئے مصمم اور اسے اپنا دینی وقومی فریضہ سمجهتی ہے۔

جماران خبررساں ایجنسی کے مطابق، 1357/هـ، شمسی کے اسفند ماہ کی ساتویں (26 فروری 1979ء) تاریخ کو امام خمینی(رح) کی آٹه ملاقاتوں میں ایک، ایران کے ارمنیوں (عیسائیوں) کے پادری «آرڈاک مانوکیان» نیز چند ایک ایرانی ارمنیوں کی ملاقات قابل ذکر ہے۔

موصوف نے اس ملاقات کے دوران امام خمینی(رہ) کی خدمت میں ایک خط پیش کیا جس کا مضمون کچه یہ ہے:

"ایران کے دشمن نہ فقط یہ کہ اس ملک کی دولت وثروت کے لٹیرے تهے بلکہ وہ اس مُلک کے باشندوں بالخصوص جوانوں کی روح، دین، ایمان اور اخلاق کو بهی غارت کرتے رہے۔ آج ہماری جنگ کا محور صرف استعمار واستبداد ہی نہیں بلکہ تمام تر برائیوں سے یہ جنگ ہے اور حق وباطل کی باہمی جنگ کے ہم عینی شاہد ہیں۔

بعض افراد اب بهی اس اسلامی تحریک کی حقیقت سے ناآشنا ہیں اور عیسائیوں کے جان ومال نیز حقوق کو لے کر ظاہری طور پر اضطراب دکهانے والے بعض افراد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان منافقت کی بذر پاشی کرنا چاہتے ہیں۔ ایرانی ارمنی ان دسیسہ کاریوں سے ہوشیار ہیں اور وہ کسی بهی صورت، ان کے دام میں گرفتار نہ ہوں گے۔

ایرانی ارمنی عوام اس مملکت سے ہر قسم کی پلیدگی کے خاتمہ کے لئے مصمم اور اسے اپنا دینی وقومی فریضہ سمجهتی ہے۔ ہم ارمنیوں نے استقلال کے ثبات اور ملک کی سالمیت کو اپنے لئے سرفہرست قرار دیا ہے".

اس ملاقات کے دوران عیسائی پادری نے اضافہ کیا:

حضرت آیۃ اللہ! ایک عرصہ سے آپ سے ملاقات کا خواہاں تها! گزشتہ ہفتہ بهی اس گروہ کے ساته حاضری کا شرف ملا لیکن جنابعالی کی نقاہت کے سبب یا کاموں میں مشغولیت کے سبب، آپ سے ملاقات نہیں ہو سکی تهی۔ اس ملاقات کا مقصد ایرانی عوام کے لئے حضرتعالی کی رہبری میں اس عظیم کامیابی کے حصول پر آپ کی خدمت میں تبریک وتہنیت پیش کرنی ہے۔ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ ایرانی ارمنیوں کی دعائے خیر آپ کی خدمت میں پیش کر سکیں۔ ہم اس انقلاب کے تئیں آپ کی مزید کامیابیوں کے لئے آرزومند ہیں۔

امام بزرگوار(رح) نے فرمایا:

بسم اللَّه الرحمن الرحیم

... ہمیں امید کہ یہ تحریک تمام مذاہب اور ان اقلیتوں کے لئے جو ایران میں مقیم ہیں، خیر کا مژدہ سنائے۔ ہمیں اچهی طرح معلوم ہے کہ اس شاہ اور اس کے باپ کے دوران حکومت میں ایرانی عوام چاہے وہ مسلمان رہے ہوں یا غیر مسلم؛ انہیں بہت ستایا گیا ہے۔ یہ بهی معلوم ہے کہ اسلام، اقلیت میں رہنے والوں کے احترام کا قائل ہے، یہاں تک کہ حضرت امیر المؤمنین (علیہ السلام) کی خدمت میں جب ایک یہودی ذمی خاتون کا پازیب لے جایا گیا تها تو آپ(ع) نے فرمایا: "میں نے اس طرح کی ایک بات سنی ہے، ایسے موقع پر انسان کی موت ہی بہتر ہے"، ہم اقلیت کے احترام کے قائل ہیں ۔ ۔ ۔ اور مجهے امید کہ اسلام کی عدل محور حکومت ان کے لئے مفید ثابت ہو اور وہ اسلام کے زیر سایہ ایک خوبصورت، آزاد اور صحیح وسالم زندگی بسر کرسکیں۔


صحیفه امام، ج6، ص258

ای میل کریں