اگر چہ امام خمینی(رح) نے اپنے بیانات میں اجتماعی عدالت کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن سیاسی اور اجتماعی، اقتصادی اور قضائی مسائل میں آپ کی خاص نظر اس بات کی بیانگر ہے کہ آپ عدالت کو صرف انفرادی صفت ہی نہیں جانتے بلکہ اسے اجتماعی اور سیاسی خصلت بهی شمار فرماتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عدالت تمام تر اسلامی مملکت کے حکمرانوں کی خاص صفت ہے۔ البتہ یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ امام خمینی(رہ) نے اجتماعی عدالت کے سلسلہ میں کوئی خاص مفہوم پیش نہیں کیا ہے۔
اسی طرح آپ نے سیاسی عدالت کو بطور مفہوم پیش نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود آپ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سیاسی اداروں اور اسلامی سماج میں عدالت کے نفاذ وقیام پر خاصی تاکید فرمائی ہے۔ بطور مثال، آپ ایران کی اسلامی مملکت کی اہم ترین خصوصیت، عدالت کی برپائی بیان کرتے ہیں: اسلامی نظام سے تمام اقوام کو سعادت، نیکی اور فوائد حاصل ہوں گے۔ اسلامی نظام میں زور زبردستی نہیں ہوتی، ظلم وستم نہیں ہوتا، اسلامی مملکت میں فقراء کے حالات پر توجہ دی جاتی ہے، حاجتمندوں اور نیازمند طبقہ کو ان کا حق نصیب ہوتا ہے، اس طرح الہی عدالت، سب کے شامل حال ہوتی ہے(1)۔
اس سے بڑه کر، امام(رہ) کی نگاہ میں احکام دین اور علم فقہ عدالت کے متحقق ہونے کے لئے ہیں کیونکہ احکام شرع سب کے سب معاشرہ میں عدالت کے قیام کی خاطر ہیں۔ احکام شرعی، اسلامی قوانین ہیں اور یہ احکام، حکومت کے شئون کا حصہ ہیں، بلکہ خود احکام وسیلہ ہیں حکومت کے نفاذ اور عدالت کی برپائی میں(2)۔
دوسری طرف سے ہمیں توجہ رکهنی چاہئے کہ آپ کی نگاہ میں توحید پر متکی معاشرہ کے لئے عدل الہی تمام امور کا سرچشمہ قرار پائے گا۔ لہذا معاشرہ میں عدالت، عدل الہی اور توحید کا نتیجہ ہے۔ آپ(رہ) کے خیال سے توحید پر استوار معاشرہ کے تمام امتیازات بے معنی ہوجاتے ہیں اور تقوی وپرہیزگاری اصل ملاک ومعیار قرار پاتے ہیں۔ آپ کی نظر میں ایسے معاشرے میں حکومت کی باگڈور سنبهالنے والے کو اس سماج کے نچلے طبقہ کے برابر ہونا چاہئے(3)۔
اس جہت سے ہمیں نتیجہ نکالنا چاہئے کہ امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں عدل الہی، معاشرہ میں متحقق ہو سکتا ہے۔ انسان بهی اسی کی بنیاد پر معاشرہ میں حکومت کی تشکیل اور سیاست میں نظم وضبط پیدا کرنے کے ذریعہ عدالت کے تحقق کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، امام(رہ) عدالت کے قیام میں فطرت کو اہمیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں: چشم بینا رکهنے والوں کے لئے عدالت بهی حق سبحانہ کی صفت جیسی ہے۔ اجتماعی عدالت ان کے اختیار میں ہے، وہ حکومت تشکیل دیتے ہیں وہ بهی ایسی حکومت جو عدالت محور ہو(4)۔
امام خمینی(رہ) کے قلمی آثار میں عدل اور عدالت کے مشتقات کا بکثرت استعمال، سماج میں عدالت کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ بعنوان مثال ۲۲ جلدی صحیفہ امام میں ۴۷۱ مرتبہ اجتماعی عدالت، ۳۸۲ بار کلمہ عدل، ۱۷۳ مرتبہ کلمہ عادل اور ۱۵ دفعہ کلمہ قسط، ذکر ہوا ہے۔
اس سے اہم بات یہ کہ آپ(رح) کی نگاہ میں، اسلام نے ہر جہت سے عدالت کے تحقق پر زور ڈالا ہے اور اس کی شناخت کے ذریعہ ہی ویسی عدالت معاشرہ میں نافذ کی جاسکتی ہے۔ علاوہ بر ایں کہ اسلام نے جس عدالت کا تذکرہ کیا ہے وہ عقل وخرد سے نزدیک اور قابل اجرا ہے(5)۔ لہذا امام بزرگوار نے اس اسلام کو مدنظر رکها ہے جہاں عدالت محور و بنیاد ہو۔
ہم اس ملک میں اجتماعی عدالت کے خواہاں ہیں۔ ایک ایسی حکومت جس میں ظلم وستم کا نام ونشان نہ پایا جاتا ہو۔ ایسا اسلام میں جس میں سب کے سب برابر ہوں(6)۔
اس بنا پر اگر کسی معاشرے میں تمام قوانین سب کے لئے یکساں ہوں اور کسی قسم کی تبعیض نہ پائی جاتی ہو اور اس کے نتیجہ میں سماج کے ہر طبقہ کو اس کا حق نصیب ہو تو اس سماج سے عدالت جیسی صفت، متصف کی جا سکتی ہے۔ اس بنا پر امام خمینی(رہ) کی نگاہ میں عدالت صرف اور صرف قضائی اور سیاسی مناصب پر فائز افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام تر سوشل اداروں سے اس کا تعلق ہے۔ جن میں پارلیمنٹ، پولیس محکمہ اور دیگر دفاتر بهی شامل ہیں(7)۔
-------------
حوالہ جات:
1ـ صحیفۀ امام، ج6، ص525.
2ـ کتاب البیع، ج2، بى تا، ص472.
3ـ صحیفۀ امام، ج5، ص81.
4ـ تفسیر سورۀ حمد، ص174.
5ـ صحیفۀ امام، ج3، ص323.
6ـ ایضاً، ج9، ص 424.
7ـ ایضاً، ج17، ص140.
ماخذ: امام خمینی(رح) پورٹل