سوال: اگرکوئی حرام سے مخلوط مال میں خمس کی ادائیگی سے پہلے اسے تلف کرنے کے ذریعے تصرف کرے تو اس کا حکم کیا ہے؟
جواب: اگرکوئی حرام سے مخلوط مال میں خمس کی ادائیگی سے پہلے اسے تلف کرنے کے ذریعے تصرف کرے تواس حرام کی ذمہ داری اس پر عائد ہوگی اورظاہر یہ ہے کہ خمس ساقط ہوجائے گا۔لہذا اس پرردمظالم کاحکم جاری ہوگااوروہ وجوب صدقہ ہے ۔احوط یہ ہے کہ حاکم شرع سے اجازت لے ۔ جیساکہ یہ بھی احوط ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے مافی الذمہ کے قصدسے خمس کی مقدار ہاشمی کوادا کرے اوراگروہ ا س میں مثل بیع تصرف کرلے توحرام مجہول کی مقدار کے لحاظ سے وہ فضولی ہوگا۔پس اگرحاکم شرع اس کی اجازت دیدے اور اس کاعوض اگرلے لیا گیا ہوتووہ خمس سے متعلق ہوجائے گا۔کیونکہ یہ عوض اس حرام سے مخلوط ہوجائے گاکہ جس کی مقدار معلوم نہیں ہے اورنہ ہی اس کے مالک کاپتہ ہے اورعوض میں دیاگیا تما م مال خریدار کی ملکیت ہوگالیکن اگرحاکم شرع تائید نہ کرے تولیا گیا عوض اس حرام سے مخلوط قرار پائے گاکہ جس کی مقدار معلوم نہیں اورجس کے مالک کاعلم ہے ۔پس اس پراس کاحکم جاری ہوگا۔البتہ معوض پہلے والے حکم پر باقی رہے گا۔پس اس کے خمس کی ادائیگی واجب ہے اورولی خمس بیچنے والے کی طرف رجوع کرسکتا ہے جیساکہ وہ خریدار کے حاصل کرلینے کے بعد اس سے بھی رجوع کرسکتا ہے۔
تحریر الوسیلة، ج 2، ص 64