سوال: کن مقامات پر روزے کی قضاء کفارے کے بغیر واجب ہے؟
جواب: اوّل: اگر کوئی شخص رات کو مجنب ہوگیا ہو اور بیدار ہونے کے بعد پھر سوجائے اور پھر اذان صبح تک سویار ہے بلکہ اقویٰ کی بناء پر یہی حکم اس شخص کے بارے میں ہے کہ جو دومرتبہ جاگنے کے بعد تیسری مرتبہ سوجائے اگرچہ احتیاط شدید یہ ہے کہ اس صورت میں کفارہ بھی واجب ہے نیز جس نیند میں وہ محتلم ہوا ہو وہ پہلی نیند شمار نہیں ہوگی کہ اس کے بعد کی نیند کو د وسری سمجھا جائے لیکن مذکورہ احتیاط کو ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔
دوم: اگر کوئی شخص نیّت نہ کرنے کی وجہ سے یار یا کرنے کے سبب یا یہ نیّت کرنے کے باعث کہ روزہ نہیں رکھے گا، اپنے روزہ کو باطل کرے، لیکن کوئی ایسا کام انجام نہ دے کہ جو روزے کو باطل کردیتا ہے۔
سوم: اگر غسل جنابت کرنا بھول جائے اور اسی طرح ایک دن یا چند دن گزر جائیں۔ جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے۔
چہارم: اس امر کی تحقیق کئے بغیر کہ صبح ہوگئی ہے یا نہیں کوئی ایسا کام انجام دے کہ جو روزے کو باطل کردیتا ہے اور اسے بعد میں معلوم ہو کہ سفیدی صبح تو پہلے سے طلوع ہوچکی ہے جب کہ وہ تحقیق کرنے پر قادر بھی تھا بلکہ احتیاط یہ ہے کہ اگر چہ عاجز بھی ہو۔ اسی طرح اگر کوئی تحقیق کرے اور رات کے باقی رہ جانے کا یقین نہ کرے، یوں کہ گمان کرے کہ صبح ہوگئی ہے یا شک کرے، احتیاط کی بناء پر ہر دو صورت میں روزے کی قضاء ضروری ہے اگر چہ اقویٰ یہ ہے کہ اگر رات کے باقی ہونے کا گمان پیدا ہوجائے تو قضاء واجب نہیں ہے بلکہ شک پیدا ہونے کی صورت میں بھی قضاء کا واجب نہ ہونا قوت سے خالی نہیں ہے جیسے اگر کوئی تحقیق کرے اور اسے یقین ہوجائے کہ ابھی رات باقی ہے اور کچھ کھا لے بعد میں معلوم ہو کہ صبح ہوگئی تھی تو اس کا روزہ صحیح ہے۔ یہ بات ماہ رمضان سے مربوط ہے البتہ ماہ رمضان کے علاوہ دیگر روزوں میں، یہاں تک کہ اس صورت میں بھی کہ اس نے تحقیق کی ہو اور یقین کرلیا ہو کہ ابھی رات باقی ہے (اور بعد ازاں اس کے خلاف ثابت ہوجائے)۔
پنجم: اگر کوئی خبر دے کہ ابھی صبح نہیں ہوئی اور اس کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے کچھ کھالے بعد میں معلوم ہو کہ صبح ہوچکی تھی۔
ششم: اگر کوئی خبر دے کہ صبح ہوچکی ہے اور (سننے والا) یہ خیال کرتے ہوئے کہ مزاح کررہا ہےاعتناء نہ کرے اور کچھ کھالے ( جب کہ بعد میں معلوم ہو کہ صبح ہوچکی تھی)۔
ہفتم: اگر کوئی خبر دے کہ رات ہوگئی ہے اور اس کی بات کی روشنی میں افطار کرلے اور بعد میں معلوم ہو کہ ابھی رات نہ ہوئی تھی البتّہ یہ اس صورت میں ہے جب کہنے والا قابل اعتماد ہو، مثلاً دو عادل افراد بلکہ ایک بھی عادل خبر دے، ورنہ اقویٰ کی بناء پر کفارہ بھی واجب ہے۔
ہشتم: اگر کوئی شخص دیکھے کہ فضا صاف ہے اور تاریکی چھاگئی ہے لہٰذا یقین کرلے کہ رات ہوگئی ہے اور افطار کرلے اور بعد میں معلوم ہو کہ شب نہ ہوئی تھی جبکہ اس کی کوئی علت بھی نہ ہو لیکن اگر فضا تاریک ہو نیکی کوئی علت ہو( مثلاً بادل ہوں یا غبار شدید ہو) اور اس صورت میں کوئی گمان کرے کہ رات ہوگئی ہے او ر افطار کرلے، بعد میں معلوم ہو کہ اسے اشتباہ ہوا ہے (مغرب نہ ہوئی تھی) تو اس پر قضاء واجب نہیں ہے۔
نہم: اگر کوئی شخص کلی و غیرہ کے ذریعے منہ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اس میں پانی ڈالے اور بے اختیار پانی حلق میں چلاجائے اور یہی حکم اس شخص کے لئے جو بے مقصد ہی منہ میں پانی بھرے (اور بے اختیار پانی اس کے حلق میں چلاجائے) البتّہ اگر بھول کر پانی حلق میں لے جائے تو اس پر قضاء واجب نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی نماز کے لئے وضو کر رکھا ہو اور کلی کرتے ہوئے بے اختیار پانی نیچے چلاجائے تو اس پر بھی قضا واجب نہیں ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس مسئلے کو صرف اس وضو کے لئے مختص سمجھے کہ جو واجب نماز کے لئے کیا جارہا ہو اگر چہ ہر وضو کہ جو مطلقاً طہارت کے لئے کیا جارہا ہو اس کے دوران میں (کلّی کرتے ہوئے پانی حلق میں چلاجائے تو) قضاء کا واجب نہ ہونا قوّت سے خالی نہیں ہے۔
تحریر الوسیلہ، ج 1، ص 321