سوال: روزه کے مبطلات میں سے جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ائمہ صلٰوۃ اللہ علیہم پر جھوٹ باندھنے، کا معیار کیا ہے؟
جواب: بناء بر اقویٰ جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ائمہ صلٰوۃ اللہ علیہم پر جھوٹ باندھنا اور اسی طرح دیگر انبیاء اور اوصیاء علیہم السلام م پر احتیاط واجب کی بناء پر جھوٹ باندھنا اور اس میں فرق نہیں کہ جھوٹ دین سے متعلق ہو یا دنیاسے، کہنے کی صورت میں ہو، لکھنے کی صورت میں ہو، اشارے کے ذریعے ہو، کنائے کے ذریعے ہو یا کسی اور ایسے طریقے سے ہو کہ جس سے ان پر جھوٹ باندھنا صادق آتا ہو۔
مثلاً اگر کوئی اس سے پوچھ کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسی بات فرمائی ہے اور وہ اشارے سے کہے کہ ’’ہاں ‘‘ جب کہ اسے ’’نہ ‘‘ کہنا چاہئے تھا یا ’’نہ‘‘ کہے جبکہ اسے ’’ہاں ‘‘ کہنا چاہئے تھا تو اس کا روزہ باطل ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صحیح بات نقل کرے اور بعد میں کہے کہ جو بات میں نے رسول اللہ سے نقل کی ہے جھوٹ ہے (یعنی ایسا آپ نے نہیں فرمایا) یا رات کو رسول اللہ کی طرف جھوٹ بات منسوب کرے اور پھر دن کو کہے: جو کچھ میں نے رات کو کہا ہے درست ہے، تو اس کا روزہ باطل ہے۔ نیز احتیاط واجب کی بناء پر اس میں فرق نہیں ہے کہ ان کی گفتار کے حوالے سے ان پر جھوٹ باندھا جائے یا کسی دوسرے حوالے سے۔ مثلاً کوئی جھوٹ بولتے ہوئے کہے کہ انھوں نے ایسا کام کیا تھا یا وہ ایسے تھے لیکن اگر کوئی سنجیدگی سے ان کے بارے میں خبر نہ دے رہا ہو بلکہ۔ مزاح یا لغو گوئی ہو تو بناء بر اقویٰ کا روزہ باطل نہ ہوگا۔
تحریر الوسیلہ، ج1، ص 314