سوال: نماز جمعہ کے خطبے سننے کے آداب کیا ہیں؟
جواب: احتیاط بلکہ اوجہ یہ ہے کہ خطبوں کوغورسے سننا واجب ہے بلکہ احتیاط یہ ہے کہ خطبے کے دوران خاموشی اختیار کی جائے اوربات چیت ترک کردی جائے اگرچہ اقویٰ یہ ہے کہ خطبے کے دوران باتیں کرنا مکروہ ہے۔ہاں اگر باتیں کرناخطبے توجہ سے نہ سن سکنے اورخطبے کافائدہ ختم ہوجانے کاموجب بنے توبات چیت تر ک کرنا واجب ہے ،بہتر احتیاط یہ ہے کہ خطبے کے دوران سامعین خطیب کی طرف رخ کرکے بیٹھیں اوراس مقدار سے زیادہ رخ د وسری جانب نہ کریں جس کی نماز میں اجازت دی گئی ہے اور(بہتر احتیاط یہ ہے کہ )خطبوں کے دوران خطیب اوراسی طرح سامعین حدث وخبث سے پاک ہوں ،اورخطیب کے لئے بہتر احتیاط یہ ہے کہ خطبوں کے دوران ایسی بات نہ کرے جوخطبوں سے متعلق نہ ہواوردونوں خطبوں سے فارغ ہونے کے بعد اورنماز شروع کرنے سے پہلے کے درمیانی وقت میں بات چیت میں کوئی حرج نہیں اورسزاوار ہے کہ خطیب خوش بیان ہو،وہ وقت کے تقاضوں کی مراعات کرے ،خطبوں میں فصاحت پائی جاتی ہو،ان میں پیچید گی نہ پائی جاتی ہو،وہ وقت کے تمام ممالک خصوصاً اس کے اپنے ملک میں جومسلمانوں پرگزر رہی ہواس سے آگاہ ہو،اسلام اورمسلمانوں کے مصالح سے باخبر ہواورشجاع ایساہوکہ اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرتاہواوروقت کے تقاضوں کے اعتبارسے حق کااظہار اورباطل کابطلان ثابت کرنے میں صراحت سے کام لیتا ہوان امور کاخیال رکھنے والا ہوجولوگوں کے دلوں میں اس کی بات کے مؤثر ہونے کاموجب ہوں مثلاً نماز کے اوقات کاخیال رکھنا ،صالحین اوراولیاء کالباس پہننا اوراس کے اپنے اعمال اس کے موعظہ وترغیب اورخوف کے مطابق ہوں اوران امور سے اجتناب کرے جو اس کے اوراس کے کلام کے بے وقعت ہونے کاباعث ہوں ،یہاں تک کہ زیادہ باتوں، ٹھٹھا مذاق اورلغو کاموں سے اجتناب کرے اوریہ سب کچھ فقط خدا کی رضا کی خاطر اوردنیا وریاست کی حب ،جوتمام برائیوں کی جڑ ہے ،سے بچنے کے لئے کرے۔تاکہ اس کے کلام سے لوگوں کے دلوں میں اثر ہوسکے اوراس کے لئے مستحب ہے کہ گرمیوں اورسردیوں میں عمامہ سر پررکھے اوریمنی یاعدنی عبا اوڑھے ،بازینت ہواس کے پاس جولباس زیادہ صاف ہواسے پہنے ،خوشبو لگائے اورباوقار وپرسکون ہو ،جب منبر پرجائے سلام کرے۔اس کارخ لوگوں کی طرف ہو اورلوگوں کارخ اس کی جانب ہو،وہ کمان ،عصا یاتلوار وغیرہ کسی چیز کاسہار لے اوراس وقت تک منبر پربیٹھا رہے جب تک مؤذن اذان سے فارغ نہ ہوجائیں۔
تحریر الوسیلہ، ج 1، ص 258