نماز

کیا قصر اور پورے نماز کی نیت کرنا واجب ہے؟

قصر اور پورے نماز کی نیت کرنا واجب نہیں نہ اس جگہ پر جہاں قصر یا پو ری نماز پڑھنا ضروری ہے

سوال: کیا قصر اور پورے نماز کی نیت کرنا واجب ہے؟

جواب: قصر اور پورے نماز کی نیت کرنا واجب نہیں  نہ اس  جگہ پر جہاں  قصر یا پو ری نماز پڑھنا ضروری ہے اور نہ ہی اس جگہ پر جہاں  نمازی کو کسی ایک کا اختیار ہے۔ اس بناء پر اگر ظہر کی نماز کو متردد حالت میں  اس نیت سے کہ پہلے تشہد یا دوسری رکعت کے بعد سلام کہے گا یا یہ کہ سلام نہیں   کہے گا باقی دورکعت کو پہلی دورکعتوں  سے ملادے تو اس کی نماز صحیح ہے۔

بلکہ اگر ابتداء ہی سے ان میں  معین طور پر کسی ایک کی نیت کرے تو بناء بر اظہر ہے اس کی پابندی کرنا ضروری نہیں  ہے اور ایک سے دوسری کی طرف نیت بدل سکتاہے بلکہ بنا بر اقویٰ ان میں  سے ہر دو معین کرنے سے معین ومشخص نہیں  ہو تیں  اور عدول کی ضرورت نہیں  رہتی۔ بلکہ دورکعت کے بعد سلام کہنے سے قصر واقع ہو جائیگی اور دورکعت اضافہ کرنے سے خود بخود پوری شمار ہو جائے گی جبکہ اس میں  نیت کا دخل نہیں  ہے۔ پس اگر قصر کی نیت کرے اور دوسجدے مکمل انجام دینے کے بعد دو اور تین کے درمیان شک کرے تو تین پر بنارکھے گااور اپنی نماز، نماز احتیاط کے ذریعے باطل ہونے سے بچائیگا جب کہ اس کے عدول کی نیت ضروری نہیں۔ بلکہ بعید نہیں  ہے کہ اس کی ذمہ داری فقط شک کے حکم پر عمل کرنے کی ہو۔ البتہ ان تمام موارد میں  احتیاط کو ترک نہیں  کرنا چاہئے اس ترتیب سے کہ عدول کی نیت کرے اور پھر (اپنے فرض کے مطابق شک کی صورت میں) نماز کے لئے  چارہ جوئی کرے اور پھر عمل کو دوبارہ انجام دے۔  

تحریر الوسیلہ، ج1، ص 174

ای میل کریں