سوال: ایک مقتدر سرپرست کے ہوتے ہوئے کیا ڈیموکریسی حاصل ہوسکتی ہے؟
جواب: جواب ایک عبارت میں آجائے گا اور وہ یہ کہ "اگر اقتدار مرکز عوام ہیں تو ولی فقیہ جس درجہ قوی ہوگا لوگوں کی رہبری اتنا ہی زیادہ حقیقت کا لباس پہنے گی۔" اس کا عکس بھی صادق ہے یعنی تمام مسائل میں جس قدر لوگ اپنی قوت کا اظہار کریں گے اتنا ہی ولی فقیہ قوی اور محکم ہوگا۔
بنابریں اقتدار کی بنیاد اہمیت رکھتا ہے جیسا کہ اگر اقتدار کا مرکز ایک اجنبی سیاسی رہبر ہوگا نہ اس ملک کے عوام اس وقت جتنا ان کا اقتدار بڑھے گا اتنا ہی لوگوں کی آزادی میں کمی آئے گی۔ اسی طرح اگر اقتدار کا مرکز نظامی اور اطلاعی تنظیموں کا ایک سیاسی رہبر ہوگا اور جس وجہ وہ مقتدر ہوگا اتنا ہی ڈیموکریسی کا میدان تنگ سے تنگ ہوگا۔
آخری صدی میں تین مکمل روشن نمونہ بتایا جاسکتا ہے کہ اس رہبر کا اقتدار کہ جس کا مرکز لوگ ہوں وہ ڈیموکریسی کے وجود میں آنے کا سبب ہوا ہے؛ ڈیموکریسی کا پہلا نمونہ گاندھی کی قیادت میں ہندوستان کی ڈیموکریسی، دوسرا نمونہ امام خمینی (رح) کی رہبری میں جمہوری اسلامی کا قیام اور تیسرا نونہ آپارٹایڈ حکومت کا خاتمہ اور منڈیلا کی قیادت میں جنوبی افریقہ میں عوامی نظام کی تاسیس ہے۔ لیکن سیاسی تجربہ کو نگاہوں دور نہیں کرنا چاہیئے، کیونکہ تاریخی تجربہ نے بتایا ہے کہ لوگوں کی رہبری کا نظام ہمیشہ یقینی خطروں سے دوچار ہے کہ ان میں سب اہم خطرہ لوگوں کا میدان کو خالی کرنا اور لوگوں سے سیاسی نظام کی کارگردگی ہارڈویئر کے اسباب کی مدد سے لوگوں پر مسلط ہونا ہے۔