حضرت علی اکبر (ع) کی ولادت اور عمر کے بارے میں مختصر تحقیق

مورخین کے نظریات اور آراء کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ایسے قوی دلائل اور شواہد پیش کئے جا سکتے ہیں

ID: 63638 | Date: 2020/04/04

حضرت علی اکبر (ع) کی ولادت اور عمر کے بارے میں مختصر تحقیق


 


حضرت علی اکبر ؑ امام حسین ؑ کے فرزند ارجمند ہیں آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اسی وجہ سے آپ کی عمر شریف بھی معلوم نہیں ہے۔ اکثر مورخین نے صرف کربلا کے مصائب بیان کرتے ہوئے آپ کے حالات کا تذکرہ کیا ہے اور فقط آپ کی شہادت کے واقعہ کو بیان کیا ہے(۱)۔ آپ کی تاریخ ولادت میں اختلاف کی وجہ سے آپ کی عمر کے بارے میں معتدد اقوال و نظریات پائے جاتے ہیں۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ کربلا میں آپ کی عمر ۱۹ سال تھی بعض نے ۲۰ سال اور بعض نے ۳۳ سال بیان کی ہے حتی بعض مورخین نے بیان کیا ہے کہ آپ کربلا میں سن بلوغ کو نہیں پہنچے تھے جبکہ ایک گروہ نے آپ کی عمر ۳۸ سال بھی ذکر کی ہے۔


مورخین کے درمیان اس سلسلے میں پائے جانے والے کثرت اختلاف اور تعدد آراء کی بنا پر جناب علی اکبر ؑ کی عمر کا دقیق طور پر اندازہ لگانا مشکل ہے۔ آپ کی عمر کے سلسلے میں پائے جانے والے اختلاف کے ساتھ ساتھ آپ کے لقب’’اکبر‘‘ کے سلسلے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے بعض علماء اور بزرگان نے لقب’’اکبر‘‘ کو امام سجاد ؑ کے لیے بیان کیا ہے جبکہ بعض نے اس سلسلے میں سکوت اختیار کیا ہے کہ آیا لقب ’’اکبر‘‘ امام سجاد ؑ کا لقب تھا یا آپ کے بھائی علی کا جو کربلا میں شہید ہوئے؟ (۲)


جن علماء نے لقب’’اکبر‘‘ کو امام سجاد ؑ کی طرف نسبت دی ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ امام سجادؑ امام حسین ؑ کے سب سے بڑے بیٹے تھے لہذا اکبر ان کا لقب تھا۔(۳)


بہرحال جناب علی اکبر ؑ کی تاریخ ولادت اور آپ کی عمر کے بارے میں جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ہم اس سلسلے میں مورخین کے نظریات کو تحلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:


مورخین کے نظریات اور آراء کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ایسے قوی دلائل اور شواہد پیش کئے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے ہم آپ کی تاریخ ولادت اور عمر کا تقریبا دقیق طریقے سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔


پہلی دلیل: بعض محققین نے تمام مورخین کے نظریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جناب علی اکبر ؑ کی تاریخ ولادت کو ۱۱ شعبان سن ۳۳ ہجری قمری قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر آیت الله عبدالرزاق الموسوی المقرم نے کتاب انیس الشیعه تألیف محمد عبدالحسین کربلائی اور کتاب حدائق الوردیه فی مناقب ائمه الزیدیه تألیف حسام الدین محلی سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: علی اکبر ؑ ۱۱ شعبان سن ۳۳ ہجری قمری کو خلیفہ سوم کے قتل سے دو سال پہلے پیدا ہوئے (۴)


خلیفہ سوم سن ۳۵ ہجری قمری کو قتل کئے گئے۔(۵)


اس کے بعد لکھتے ہیں: مرحوم ابن ادریس حلّی کتاب سرائر کے حصے زیارات میں لکھتے ہیں:’’ علی اکبر ؑ خلیفہ سوم کے دور خلافت میں پیدا ہوئے‘‘ اس اعتبار سے جو تاریخ ہم نے بیان کی ہے زیادہ واقعیت کے قریب ہے۔


اس قول کی بنا پر کربلا میں آپ کی عمر ۲۷ سال رہی ہو گی(۶)


دوسری دلیل: بہت سارے مورخین جناب علی اکبر ؑ کو حضرت امام سجاد ؑ سے بڑا قرار دیتے ہیں اس اعتبار سے ثابت ہو جاتا ہے کہ لقب ’’اکبر‘‘ آپ ہی کا لقب تھا۔


تیسری دلیل: جب امام مظلوم ؑ کے اہلبیتؑ کو اسیر کر کےشام دربار یزید میں لے جایا گیا تو یزید ملعون نے امام سجاد ؑ سے کہا: تمہارا نام کیا ہے؟ امام نے فرمایا: علی بن حسین۔ یزید نے کہا: مگر خدا نے علی بن حسین کو قتل نہیں کیا؟ امام نے فرمایا: ’’کان لی اخ اکبر منی یسمی علیا فقتلتموه‘‘(۷)


’’وہ علی نام کے میرے بڑے بھائی تھے جنہیں تو نے قتل کیا ہے‘‘


ممکن ہے ابن کثیر کا کتاب البدایہ و النہایہ میں کلام امام ؑ کے اسی کلام سے ماخوذ ہو جووہ لکھتے ہیں: ’’و کان له اخ اکبر منه یقال له علیاً ایضاً‘‘(۸)


امام سجاد ؑ کے ایک بڑے بھائی تھے جن کا نام بھی علی تھا۔


چوتھی دلیل: امام سجاد ؑ کی تاریخ ولادت ۳۶ یا ۳۸ ہجری قمری بیان ہوئی ہے(۹)


اور آپ کے فرزند امام باقر ؑ ۴ سال کی عمر میں کربلا میں موجود تھے (۱۰)


نیز آپ کے مذکورہ بیان کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناب علی اکبر ؑ جو آپ سے بڑے تھے کی تاریخ ولادت ۳۳ ہجری قمری ہے اور شہادت کے وقت آپ کی عمر۲۷ یا ۲۸ سال تھی۔


 


 


 


 


 


 


حوالہ جات:


 


[1] محمد بن جریر طبرى، تاریخ الملوک و الامم، ج 5، ص 446. شیخ مفید ارشاد، ج 2، ص 135.


[2] میرزا ابوالفضل تهرانى، شفاء الصدور فى زیارت العاشورا (انتشارات سیدالشهداء (علیه السلام) ایران) ج 2، ص 446.


[3] حضرت آیة الله خوئى، مجمع الرجال الحدیث، مدینة العلم قم، ج1، 358.


[4] شیخ مفید، ارشاد، حر المؤتمر العالمى، ج 2، ص 135.


[5] حسام الدین المحلّى، حدائق الوردیه فى مناقب ائمه الزیدیه (طبع قدیم، دمشق، غیر هاتف، ص 116.


[6] وہی حوالہ، ص 16.


[7] ابوالفرج اصفهانى، مقاتل الطالبین، ص 120، مؤسسه اسماعیلیان.


[8] ابن کثیر، البدایه، ج 9، ص 103.


[9] شیخ عباس قمى، منتهى الامال، ص 557، مطبوعاتى حسینى، 1372 هـ ش.


[10] وہی حوالہ، ج 2، ص 671.