ساتویں محرم کا دردناک واقعہ

دنیا میں جانوروں پر کوئی پانی بند نہیں کرتا اور نہ پانی بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے

ID: 55483 | Date: 2018/09/17

7/ محرم کی تاریخ عالم انسانیت اور کائنات عالم و آدم کے لئے بہت ہی دردناک تاریخ ہے۔ ایسی تاریخ ہے کہ اس تاریخ میں رونما ہونے والا واقعہ ضمیر انسان اور انسانیت کو لرزا دیتا ہے۔انسانیت لرز اٹھی، کائنات میں سکتہ طاری ہوگیا۔ ماں تڑپ اٹھی۔


یہ تاریخ ایسی ہے کہ دنیا کے عظیم انسان، لخت جگر زہرا و علی (ع)، نواسہ رسولخدا(ص) اور آپ کے اہل حرم اور اصحاب و انصار پر پانی بند کردیا گیا۔ جب کہ تاریخ آدم سے لیکر کائنات کے کسی خطہ میں کسی انسان کو پانی سے غیر مسلم نے بھی محروم نہیں کیا ہوگا اور نہیں کیا ہے۔ لیکن کربلا کے تپتے صحرا میں رسولخدا (ص) کی جانشینی کی دعویدار بظاہر مسلمان نے اس انسانیت سوز عمل مرتکب ہوا۔


اس دن ابن زیاد نے عمر سعد کو خط لکھا اور اس میں حکم دیا کہ اپنے سپاہیوں کے ذریعہ امام حسین (ع) اور ان کے اصحاب و انصار اور آب فرات کے درمیان فاصلہ ایجاد کردو اور امام (ع) کو ایک قطرہ پانی پینے کی بھی اجازت نہ دو۔ خط پڑھتے ہی عمر سعد نے عمر بن حجاج کو 500/ سوار کے ساتھ فرات کے کنارے تعینات کردیتا ہے اور امام حسین (ع) اور آپ کے اصحاب کو پانی سے محروم رکھا۔ یہ غیر انسانی رفتار امام حسین (ع) کی شہادت سے تین دن پہلے دیکھنے میں آئی۔ اس وقت بجیلہ قبیلہ کا عبداللہ بن حصین ازدی نامی ایک شخص نے آواز لگائی کہ اے حسین! خدا کی قسم! اس پانی کا ایک قطرہ نصیب نہ ہوگا اور پیاسے جان دوگے۔


امام حسین (ع) نے فرمایا: خدا یا! اسے یہاں ہلاک کر اور کبھی اپنی رحمت اس کے شامل حال نہ فرما۔


حمید بن مسلم کہتا ہے: خدا کی قسم اس گفتگو کے بعد اس سے ملنے گیا تو دیکھا کہ وہ بیمار ہے۔ اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے! میں نے دیکھا کہ عبداللہ بن حصین اس قدر پانی پیتا تھا کہ اس کا پیٹ پھول گیا تھا اور اس کے بعد بھی پانی پانی چیختا تھا۔ اور پانی پئے جارہا تھا یہاں تک اس کا پیٹ پھٹنے کے قریب تھا لیکن سیراب نہ ہوا اور اسی طرح واصل جہنم ہوا۔


دنیا میں جانوروں پر کوئی پانی بند نہیں کرتا اور نہ پانی بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے لیکن یہ بھوگے بھیڑئے، درندہ صفت انسان، حیوانیت کے پتلے، رحمت الہی سے دور شیاطین نے انسانیت کا گلہ گھونٹ دیا۔ زبان پر " لاالہ الا اللہ" اور قرآن کی آیت کی تلاوت اور محافظ قرآن پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ ان کو نہ اسلام سے کوئی سرو کار تھا نہ قرآن پر ان کا کوئی عقیدہ تھا۔ یہ انسان کی شکل میں جنگلی درندے تھے۔ یہ انسانیت پر بدنما داغ ور دھبہ تھے۔


سن 61 ق کے اس دن کے واقعہ سے یہ درس ملتا ہے کہ اگر حق کی شیدائی اور اسلام کے فدائی اور محافظ ہو تو اسلام دشمن عناصر تمہارے ساتھ ناقابل تصور امر بھی کرجائیں گے۔ تمہیں اسلام اور انسانیت کو بچانے کے لئے بہت کچھ برداشت کرنا ہوگا۔ اپنی جان کی بازی لگانی ہوگی سخت سے سخت حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، اپنے عزیزوں کی قربانی دینی ہوگی۔ مال و اولاد سے ہاتھ دھونا ہوگا۔ اگر چاہتے ہو کہ حق بلند ہو حق ثابت ہو اور حق کی حکمرانی ہو تو یہ سب سہنا پڑے گا۔ دشمن اپنی خباثت اور کدورت نکالنے کے لئے انسانیت کی ساری حدوں کو پارکر جائے گا۔