حضرت علی (ع)

تمہاری جان کی قیمت جنت ہے؛ اس سے کم پر اپنا سودا نہ کرو!

انسان اور انسانی فضائل کی شناخت

ID: 54947 | Date: 2018/08/06

انسان کا اپنے ذاتی فضائل و کمالات کی جستجو کرنا جو اس کی فطرت میں بطور امانت رکھے گئے ہیں، خودشناسی کا ایک اہم مرحلہ ہے، کیونکہ جب تک انسان اپنی ذاتی استعداد، صلاحیت کو تلاش نہیں کرے گا اور اپنے اندر موجود کمالات کو نہیں جانے گا اس وقت اپنی کرامت و شرافت کی قیمتی گوہر کو نہیں پاسکے گا اور کمال و بلندی کی راہ میں قدم نہیں اٹھا سکتا۔


لہذا اس کو پانے کے لئے اپنی ذاتی استعداد اور توانائی، عظمت و شان اور کرامت و شرافت کو مرحلہ عمل میں لائے۔ حضرت علی (ع) انسان کے اپنی معرفت کے بارے میں فرماتے ہیں: "انسان کی جہالت کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر نہ پہچانے۔"


بیشک انسان کا اس پست دنیا میں غرق ہونا، مادی زندگی کے جلووں اور مظاہر کا فریفتہ اور دلدادہ ہونا اور دنیاوی زرق و برق کا گرویدہ بننا، خلقت الہی اور خدائی بلند و بالا کرامت کے مقصد سے ہماہنگ نہیں ہے۔


حضرت علی (ع) تاکید فرماتے ہیں: "ہمیں لذیذ اور عمدہ غذاوں کے کھانے یا چوپایوں کو طرح (چارہ) کھانے کے لئے خلق نہیں کیا گیا ہے۔ انسان کی ذاتی کرامت اور فضیلت کی عظمت و قدر اور اس مقصد کی قدردانی جس کے لئے خدا نے خلق کیا ہے، بہت ہی بلند و بالا ہے۔ کم سے کم انسان کی کرامت کی قیمت جنت ہے۔


عزت نفس اور انسانی کرامت کا جنت کے عوض معاملہ کرنا کم ترین قیمت ہے جس کی طرف تاجر انسان کو سبقت کرنی چاہیئے۔ اولیائے الہی اور علم و عرفان کے بزرگان کرامت مطلق سے متصل ہونے کے خواہاں ہیں اور جنت پر بھی راضی نہیں ہوتے۔ امام علی (ع) فرماتے ہیں: "انسان کی عظمت اتنی  زیادہ ہے کہ اس کی پوری دنیا بھی قیمت قرار نہیں پاسکتے" یعنی انسان کی عظمت کا مقابلہ دنیاوی مال و زر، موتے چاندی اور قصر و باغات سے نہیں ہوسکتا۔


امام علی (ع) فرماتے ہیں: "کیا کوئی آزاد مرد نہیں ہے کہ دنیا کے اس چبائے ہوئے لقمہ کو اہل دنیا کے لئے چھوڑدے؟ یقینا تمہاری جان کی قیمت جنت ہے لہذا اس سے کم پر اپنا سودا نہ کرو۔"


آپ (ع) فرماتے هیں: "خداوند عالم نے فرشتوں کو خضوع و خشوع کے عنوان سے سجدہ کا جو حکم دیا تھا وہ انسان کے سامنے حکم نہیں تھا بلکہ انسانی کرامت اور شرافت کے سمانے سر جھکانے کا حکم تھا۔ " یعنی گوشت، پوست، ہڈیوں اور قد و قامت کے مالک انسان کے سامنے نہیں بلکہ "انسانی کرامت" کے سامنے سر جھکانا اور تعظیم کرنے کا حکم تھا۔ اور جس نے اس کرامت کے سامنے سر نہیں جھکایا اسے راندہ درگاہ قرار دیا گیا اور وہ دشمن خدا قرار پایا۔


تعظیم اورسجدہ احترام، خضوع و خشوع، تواضع و انکساری، خاکساری اور فروتنی کا بلند ترین مرتبہ ہے کہ خدا کے سوا کسی کے سامنے بھی شرک شمار ہوتا ہے۔ لیکن انسانی کرامت اس درجہ قیمتی اور قابل قدر تھی کہ اس کے لئے خداوند عالم کے امر کی تعظیم لازم ہوگئی۔ انسان اس درجہ خدا کے نزدیک عزیز، مکرم اور باعظمت ہے کہ اس کی ذاتی کرامت کے سامنے فرشتوں کو سجدہ ریز کردیا۔ کرامت ذاتی صفت ہے جسے تکرار اور عمل کی ضرورت ہے تا کہ اس کا حامل صاحب ملکہ ہوجائے اور یہ کام چنداں آساں بھی نہیں ہے اسی لئے حضرت علی (ع) فرماتے ہیں : "کریم وہ ہے جو حرام سے اجتناب کرے اور عیوب سے پاک ہو۔"


دوسری جگہ پر فرماتے ہیں: "تقوی سے زیادہ کوئی کرم نہیں ہے۔" لہذا انسانی کرامت اور فضیلت کو اجاگر کرنے کے لئے برائیوں سے دوری، نیکیوں پر عمل کی ضرورت ہے۔ حرام کاموں سے بچنے اور اچھے کاموں کے کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان کے اندر اس وقت تک انسانیت نہیں آئے گی جب تک وہ اپنی قدر نہ پہچانے اور جب پہچان لے تو اپنے پوشیدہ گوہر کے تقاضوں پر عمل کرے۔