امام خمینی(رہ) کی اخلاقی روش کی خصوصیات(4)

مایوسی سے امیدواری

جس کی دوش پر انسان کی تعلیم وتربیت اور استادی کی ذمہ داری ہوتی ہے اسے بڑی مہارت اور قوت کا مالک ہونا چاہئے تاکہ آسا نی سے اپنی ذمہ داری کو نبھاسکے اس کی ہدایت ونصیحت اس ا نداز سے ہو نی چاہئے کہ اس کے برے نتائج برآمد نہ ہو

ID: 44050 | Date: 2016/05/26

بے شک آپ ان توا نا افراد میں  سے ایک ہیں  جنہوں  نے اس راہ کو طے کیا ہے اور وہ دیانت ومعنویت کے سمجھنے میں  درخشا ن نظر آتے ہیں  بڑی اچھی طرح تہذیب نفس اور صحیح وغلط کی تشخیص کو درک کرتے ہیں ۔ آپ کی اخلاقی تعلیمات سے کبھی بے نشاطی، ناامیدی اور ناتوا نی نہیں  ہوتی بلکہ وہ انسان کو اس مرحلے میں  لاکر کھڑا کرتی ہیں  کہ وہ امید وار بن کر کوشش کرنے لگے اسی وجہ سے مخاطب کی روح و جان میں  عجیب انقلاب اور اثر پیدا ہوجاتا ہے جس طرح آپ اخلاق سے باز رکھنے والے مسائل جیسے: زہد، سادہ زیستی، نفسانی خواہشات کے ساتھ جہاد وغیرہ پر تکیہ کرتے تھے اسی طرح ا ن چیزو ں  کو بھی بیا ن کرتے تھے جو تعلیمات پر ابھارتی ہیں  جیسے: نفس کی رعایت کرنا، اعتدال کی رعایت کرنا، شرعی مباح چیزوں  سے بہرہ مند ہونا اور واقعی ضروریات کو پورا کرنا۔ آپ اپنے اخلاقی بیا نات میں  جس طرح انسان کے نفس کی ناشکری، دنیا کی بے اعتباری اور خودسازی کی راہ میں  جو منحرف کرنے والے بہت سے اسباب وعوامل ہیں  کی طرف اشارہ کرتے ہیں  اسی طرح ان باتوں  کی طرف بھی پوری توجہ رکھتے ہیں  کہ نفس تربیت کو قبول کرتا ہے، زندگی سے اچھی طرح کامیابی حاصل کرنے کا امکان ہے اور انسان تمام رکاوٹوں  کو دور کرنے کی قوت وصلاحیت رکھتا ہے۔


 امام خمینی(ره)ا ن لوگوں  میں  سے تھے جن کا عقیدہ یہ ہو کہ انسان بالذات شر پر ہے اور وہ حق کو قبول نہیں  کرتا لہٰذا اس کے گلیمِ نفس کودھویا نہیں  جاسکتا البتہ آپ کا عقیدہ یہ تھا کہ واقعی انسان بننا بہت ہی مشکل کام ہے لیکن آپ کا نعرہ یہ نہ تھا کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جا نا چاہئے۔ آپ اپنی اخلاقی سفارشوں  میں  جناب رسول خدا  (ص) کے پر نشاط اور مثبت طریقے کو اختیار کر کے ایک ہی ساتھ ’’انذار‘‘ و’’تبشیر‘‘ کے چراغ کو روشن کرتے تھے: ’’یٰا أَیُّہَا النَّبِيُّ إنٰا أرْسَلْناکَ شاہِداً وَبَشِیْراً  وَنَذِیراً وَدَاعِیًا إِلَی اﷲِ بِإِذْنِہِ وَسِرَاجًا مُنِیرًا‘‘ اے پیغمبر ؐ !ہم نے تم کو اس لئے بھیجا ہے کہ تم گواہ، بشارت دینے والے اور ڈرا نے والے بن کر رہو اور اذن الٰہی سے لوگوں  کو دعوت دو اور ایک روشن چراغ بن کر رہو۔(سورۂ احزاب،۳۳؍۴۵، ۴۶)


جس وقت حضرت رسول اکرم (ص) نے اپنے صحابی معاذ کو یمن بھیجا تو ا ن سے یوں  تاکید کی: ’’یسّرولا تعسّر وبشّر ولا تنفّر‘‘ لوگوں  کے ساتھ آسا نی پیدا کرو دشواری کھڑی نہ کرو ا نہیں  بشارت دو بیزار و متنفر نہ ہونے دو۔(سیرت ابن ہشام،ج۴، ص۲۳۷)


امام خمینی(ره) اپنے اخلاقی آثار اور گفتار میں  خطاکاروں  کے اعمال کے نتائج کو اس طرح بڑھا چڑھا کر نہیں  بیا ن کرتے تھے کہ خطاکار کو بالکل مایوس کردیں  اور اصلاح کا راستہ ہی بند کر دیں  اسی طرح اخلاقی فضائل کو اس درجہ مشکل اور دشوار بنا کر پیش نہیں  کرتے تھے کہ عام لوگ یہ تصور کرنے لگیں  کہ ان کے تو بس کی بات ہی نہیں  ہے اور چونکہ وہ ا ن اوصاف کے باطن اور ا ن کی حقیقت کو درک نہیں  کرسکتے لہٰذا ا ن کے متعلق کوشش ہی بیکار ہے چنا نچہ آپ عبرت کے طور پر حضرت یحییٰ  (ع) کے خوف کو بھی یاد دلاتے تھے اور حضرت عیسیٰ  ؑکی طرح ا نہیں  امید بھی دلاتے تھے۔


 چونکہ امام خمینی(ره) اخلاقی تعلیمات میں  واقعیت کو مدنظر رکھتے تھے اور وہ ناامید کرنے والے مطالب میں  گرفتار نہیں  ہوتے تھے اسی وجہ سے ا ن کی تعلیمات دلوں  کے ا ندر نفوذکرجاتی تھیں  پڑھنے والے کے ا ندر ا نقلاب وتاثیر کاسبب بنتی تھیں  آپ کی دلنشین باتیں  اور تحریریں  جو بڑی دقت وحکمت کے ساتھ اداہوتی تھیں  وہ دل وجا ن کے ا ندر جذبہ وا نقلاب پیداکردیتی تھیں  آپ کے شہید شاگرد استاد مرتضیٰ مطہری(ره) کے بقول وجد ونشاط اور سرمستی کاسبب بنتی تھیں : ’’جو شخصیت میری نظرمیں  بہت محبوب تھی ہر جمعرات اور جمعہ کوجو درس اخلاق ہوتا تھا وہ درس مجھے سرمست کردیتاتھا۔۔۔ یہ بات میں  کسی مبالغہ کے بغیر عرض کررہاہوں  کہ اس درس سے مجھے ایسا وجد حاصل ہوتاتھا کہ بعد والے ہفتے میں  دوشنبہ اور سہ شنبہ تک متاثر رہتاتھا۔


بے شک آپ کی اخلاقی تعلیمات اور مواعظ روح وجا ن پر صیقل کردیتے اور دلوں  کو شگوفہ بنا دیتے تھے آپ مخاطب کواپنے خطاب کے تیررس میں  قراردیتے تھے اور وجدان کی کیفیت کے ساتھ اس سے کلام کرتے تھے یہ خصوصیت صرف ا ن افراد کی ہوتی ہے جو دین اور وحی کے سرچشمے سے بہرہ مند ہوئے ہوں  اور معصوم رہنماؤں  کے سچے راستے پر چلنے والے ہوں ۔


مولا حضرت امیر المؤمنین (ع) کے کلام کے اثر اور ا نقلاب کے بارے میں  کتابوں  میں  لکھا ہے: جب آپ کی دلپذیر ورسا گفتگو ہمام نامی صحابی کے دل وجا ن کے ا ندر اتر گئی تو ا ن کے ا ندر ایک عظیم انقلاب برپاکردیا ہمام کا قفس تن وبدن ٹوٹ گیا وہ پروازکر کے اپنے معبود کی بارگاہ میں  پہنچ گیا اس موقع پر حضرت علی  ؑ نے فرمایاتھا: ’’۔۔۔ھٰکذا تسمع مواعظ البالغۃ بأہلہا‘‘ دلپذیر اور رسا نصیحت اپنے اہل کے ا ندر اثر کرجاتی ہے۔( نہج البلاغہ،خطبہ ؍۱۸۴)


اسی لئے دینی معارف میں  ہم سے یہ تاکید کی گئی ہے کہ اپنی جا ن کے صفحے کو ہر مدعی کے سپرد نہ کردو اپنی روح کے دسترخوا ن کو ہر ایک کے سامنے نہ بچھا دو بلکہ ایسے استاد کی باتوں  کو دل وجا ن سے


سنو اور ایسے عالم کے علم وحکمت سے بہرہ مند ہو جو تمہارے ا ندر ا نقلاب وتبدیلی پیدا کردے تمہیں  سارے عیوب و نقائص سے پاک کرے اور جو چیزیں  ضروری ہیں  ا ن کی طرف ہدایت کردے:


          ’’ تقربوا الیٰ عالم یدعوکم من الکبر الی التواضع ومن الریا الی الاخلاص ومن الشک الی الیقین ومن الرغبۃ الی الزہد ومن العداوۃ الی النصیحۃ ولا یصح لموعظۃ الخلق الّا من خاف ہٰذہ الآفات بصدقہ و۔۔۔‘‘


ایسے عالم کا تقرب حاصل کرو جو تمہیں  تکبر سے فروتنی، ریاسے اخلاص، شک سے یقین، دنیا پرستی سے پارسائی، دشمنی سے نصیحت کی طرف دعوت دے اورصرف وہی شخص ا ن شرائط پر پورا اتر سکتا ہے جو سچائی کے ساتھ ا ن آفتوں  سے ڈرتا ہو۔