تہران میں مجمع جہانی اہلبیت(ع) کی جنرل اسمبلی کے چھٹے اجلاس:

امام خمینی، دین اہلبیت(ع) کو استحکام اور حقیقی اسلام کا نعرہ بلند کیا

استعماری طاقتیں ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے شام و عراق کو تقسیم کرنے کے در پہ ہیں اور ان کا یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

ID: 40707 | Date: 2015/08/15

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی کے مطابق، تہران میں مجمع جہانی اہلبیت(ع) کی جنرل اسمبلی کے چھٹے اجلاس میں آئی ہوئی دنیا بھر کی اہم شخصیات نے نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد، آج اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے مرقد پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔


مجمع جہانی اہلبیت(ع) کے سربراہ آیت اللہ اختری شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: امام راحل دین اہلبیت(ع) کو استحکام عطا کرنے والے اور دنیا میں حقیقی اسلام کا نعرہ بلند کرنے والے تھے۔
آپ نے مجمع جہانی اہلبیت(ع) کے چھٹے اجلاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس امام زین العابدین(ع) پر عالمی کانفرنس کے زیر سایہ شروع ہو رہا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ اس میں خصوصی نشستیں منعقد کر کے امت مسلمہ میں موجودہ مسائل کے بارے میں بہترین راہ حل تلاش کئے جائیں گے۔
انہوں نے آخر میں مرقد امام کے متولی حجۃ الاسلام و المسلمین سید حسن خمینی کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ تمام مسلمان امام خمینی (رہ) کی سیرت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنے میں کامیاب ہونگے۔


۔ ۔ ۔


ابنا کے مطابق، اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی اعلی کونسل کے رکن ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے تہران میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علاقے میں پائی جانے والی موجودہ کشیدگی کی طرف اشارہ کیا اور کہا: ایک امریکی عہدہ دار نے حالیہ دنوں عراق کی تقسیم کی خواہش ظاہر کی، استعماری طاقتیں ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے شام و عراق کو تقسیم کرنے کے در پہ ہیں اور ان کا یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ اگر چہ ہر آئے دن شیعہ سنی تفرقہ کی فضا پھیلانے والے عناصر سماج میں پنپتے رہتے ہیں کہا: علاقے میں پائے جانے والی کشیدگی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ شیعہ سنی کی جنگ ہے بلکہ یہ سب صیہونی لابی کے زیر اثر پروان چڑھنے والی استعماری سازشوں کا نتیجہ ہے جو بطور کلی اسلام کے دشمن ہیں۔
انہوں نے علاقے میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ امریکہ اور اسرائیل کا مخفی ہاتھ قرار دیا اور کہا کہ امریکہ اور صیہونی ریاست مشرق وسطیٰ سے اپنے مفاد کے طلبگار ہیں وہ بالواسطہ یا با واسطہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس دوران کچھ ناپختہ ممالک بھی ان کے دکھائے ہوئے سراب سے دھوکا کھا کر ان کے لیے میدان ہموار کر رہے ہیں۔
اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کی اعلی کونسل کے رکن نے اہل بیت طہار(ع) کے پیروکاروں کی ذمہ داریوں کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا: دشمن کے مخفی ہاتھ کو برملا کرنا، مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی فضا قائم کرنا اور تکفیری چالوں کا پردہ چاک کرنا، اہل بیت(ع) کے تمام پیروکاروں کی اہم ذمہ داریاں ہیں۔


حزب اللہ لبنان کے نائب سکریٹری جنرل نے عالمی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے امام سجاد علیہ السلام کی دعاوں کے مجموعہ کو عالم اسلام کو اسلامی معارف سے نزدیک کرنے کا ذریعہ قرار دیا اور کہا کہ یہ دعائیں خاص طور پر دعائے مکارم الاخلاق مسلمانوں کے درمیان اخلاقی خوبیوں کو وجود میں لانے اور آپس میں ہمدردی اور ہمدلی پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔


انہوں نے عالم اسلام میں پائے جانے والے موجودہ مسائل کا راہ حل اسلام کی صحیح تعلیمات پر عمل بتاتے ہوئے کہا کہ تکفیری ٹولوں کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ اسلام کو صحیح نہیں سمجھ پائے ہیں اور اسلام کی غلط تفسیر پر عمل کرنے کے باعث موجودہ مشکلات کو وجود میں لائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام اسلامی تحریکیں صرف انقلاب اسلامی ایران کو نمونہ قرار دے کر ہی کامیابی کے مراحل طے کر سکتی ہیں بلکہ اسلام کو اگر عالمی پیمانے پر کامیابی حاصل ہو گی تو وہ بھی صرف ولایت فقیہ کے زیر سایہ ہو سکتی ہے۔


عراق کے نائب صدر نوری مالکی نے تہران میں جاری اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی کے اجلاس اور امام سجاد(ع) پر بین الاقوامی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا: ہمیں چاہیے کہ ان معاشروں سے حساسیتوں کو کم کریں جن میں شیعہ دوسرے مذاہب کے ماننے زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارا تعلق اہل بیت(ع) کے مدرسے سے ہے، وہ مدرسہ جس میں عرفان امام خمینی نے سکھایا تاکہ بادشاہی حکومت کو ختم کیا جائے۔ وہ مدرسہ جس میں شہید صدر کو فداکاری کا درس دیا گیا انہوں نے سماج کی آزادی کے لیے اپنی جان کی قربانی لگائی۔
عراق کے نائب صدر نے کہا: عراق کے شیعہ، تکفیریوں سے رنج و الم میں ہیں عراق میں استعماری طاقتوں نے صدام کی حکومت سرنگوں ہوتے ہی اپنے پروپیگنڈے شروع کر دئیے اور سعودی عرب اور اسرائیل نے اپنے مزدوروں کا استعمال کر کے عراق کو تقسیم کرنے کی سازش رچا لی۔
نوری مالکی نے مزید کہا: مختلف ملکوں میں کشیدگی کی اصلی وجہ وہابیت اور صہیونیت ہے۔ جب تک وہابیت رہے گی تکفیری ٹولے القاعدہ، داعش اور بوکوحرام وجود میں آتے رہیں گے۔ جب تک صہیونیت رہے گی مسلمان حملوں کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ صیہونیت صرف میدان جنگ میں شیعوں کے ساتھ جنگ نہیں کرتی بلکہ ہر میدان میں برسرپیکار ہے اسرائیل کے ہوتے ہوئے زندگی ناسور ہے لہذا جس طرح وہابیت سے لڑنا ضروری ہے اسی طرح صیہونیت سے بھی لڑنا ہو گا۔