انسان جتنا ارتقا کریگا، اتنا ہی امام حسین(ع) کا گرویدہ ہوتا جائیگا

مولانا عمران حیدر: ہمارے زمانے میں جس ہستی نے کربلا کی روح کو لوگوں میں پهونک دیا اور قلوب کو زندہ کیا ہے، وہ امام خمینی ہیں۔ امام خمینی(رح) کی بابصیرت قیادت اور انقلاب اسلامی کے زیر سایہ ایسی مائیں نظر آتی ہیں، جن میں کربلا کی روح موجود ہے۔

ID: 38119 | Date: 2014/12/08

اسلام ٹائمز: محرم الحرام میں چونکہ سوگواری کی فضا ہوتی ہے، تو کچه لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ واقعہ کربلا کا یہی ایک پہلو یعنی غم اور سوگواری! اس پر روشنی ڈالیں کہ کربلا کا پیغام صرف اس حد تک محدود نہیں؟


مولانا عمران حیدر:  یہ درست ہے کہ واقعہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک درد ناک اور غمناک واقعہ ہے۔ انسانیت اس پر جتنا بهی گریہ کرے اور غم منائے وہ کم ہے۔ لیکن یہ واقعہ دو پہلو رکهتا ہے۔ ایک پہلو المناک ہے کہ رحلت رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد آپ کے اس نواسےؑ اور انکے گهر والوں پر ظلم روا رکها گیا۔ ساته ہی ایک کربلا کا روشن پہلو ہے، جو روشنی عطا کرتا ہے، کربلا کا حقیقی چہرہ اور پہلو، حماسی اور اقدار اسلامی کو زندہ کرنے والا اور دین کی بنیادوں کو بچانے کے لئے، اپنا سب کچه قربان کر دینے والا پہلو، جس سے پتہ چلتا ہے کہ مولا امام حسین علیہ السلام نے دین اسلام کو کس طرح مجسم کرکے دکهایا۔ یہ کربلا کا خوبصورت ترین پیغام ہے۔


اسلام ٹائمز : عزاداری کے مروجہ مراسم کس حد تک مقصد قیام امام حسین علیہ السلام کی ترویج کو پورا کر رہے ہیں، کیا اس سے اسلام کا وہ حقیقی چہرہ نمایاں ہو رہا ہے، جسے یزید دهندلانا چاہتا تها اور امام حسینؑ نکهارنا چاہتے تهے؟
مولانا عمران حیدر:  واقعہ کربلا کی یاد اور مراسم عزاداری کے متعلق تو بہت زیادہ تاکید فرمائی گئی ہے لیکن ضرورت یہ ہے کہ اسکی روح کو زیادہ بہتر بنایا جائے، کوشش کی جائے کہ کربلا کا حقیقی پیغام بهی لوگوں تک پہنچے۔ عزاداری ہمارے معاشرے میں حقیقی انقلاب لاسکتی ہے، بشرطیکہ یہ اپنی روح کیساته ہو۔ یہ مراسم امام حسین علیہ السلام کے پیغام کی ترویج کا بہترین ذریعہ ہیں۔


اسلام ٹائمز: اس مقصد کی ترویج کیلئے کیا پورے سال میں سے صرف دس دن ذکر امام حسین علیہ السلام کافی ہے، جبکہ باقی پورا سال اس پر توجہ نہ دی جائے، اس سلسلے میں کیا ہونا چاہیے کہ یہ پیغام جاری رہے؟
مولانا عمران حیدر:  ذکر امام حسین علیہ السلام کا تعلق صرف دس دنوں سے نہیں ہے، بلکہ ہر دن یوم عاشورہ، ہر زمین ارض کربلا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا مشن جاری ہے۔


اسلام ٹائمز: عصر حاضر میں کونسا گروہ، معاشرہ یا شخصیت ایسی ہے جنہیں دیکه کے پتہ چلے کہ ان لوگوں میں کربلا کے پیغام کی جهلک نظر آتی ہے۔؟
مولانا عمران حیدر:  ہمارے زمانے میں جس ہستی نے کربلا کی روح کو لوگوں میں پهونک دیا ہے اور قلوب کو زندہ کیا ہے، وہ امام خمینی ہیں۔ امام خمینی(رح) کی بابصیرت قیادت اور انقلاب اسلامی کے زیر سایہ ایسی مائیں نظر آتی ہیں، جن میں کربلا کی روح موجود ہے۔ انقلاب اسلامی کے شہداء ایسے ہیں، جن میں کربلا کے شہداء کی جهلک نظر آتی ہے۔ انہوں نے شہدائے کربلا کی تاسی اور انکی پیروی میں شہادت کو اس طرح قبول کیا ہے، جس طرح حضرت علی اکبر علیہ السلام اور حضرت قاسم علیہ السلام نے شہادت کو عاشقانہ انداز میں گلے لگایا۔ انقلاب اسلامی سب سے پہلے خود  ایک نمونہ ہے اور پهر ایک انفجار نور ہوا ہے، اسکی کرنیں جہاں جہاں گئی ہیں، وہ لبنان میں حزب اللہ ہو، پاکستان میں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی، ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اور انکے رفقا، ان جیسی جن ہستیوں نے بهی دنیا میں اس نورانی اور حسینیؑ انقلاب کی شعاعوں کو قبول کیا ہے، وہاں کربلا کی روح اور اسکی تاثیر نظر آتی ہے۔


اسلام ٹائمز: اسوقت دنیا میں فلسطین، عراق، لبنان، خود پاکستان ہر جگہ کربلا بپا ہے، جہاں بهی کربلا بپا ہوتی ہے اسکی نصرت کے متعلق کربلا کا دم بهرنے والوں کی کیا ذمہ داری ہے۔؟ 
مولانا عمران حیدر:  یہ زمانہ، آخر الزمان ہے، اس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ اسی دور میں حق و باطل کا معرکہ ہوگا۔ ہم بهی اس دنیا کا ایک حصہ ہیں۔ عالم اسلام میں پیدا ہونے والی بیداری کو رہبر معظم نے بیداری اسلامی کا نام دیا ہے۔ ہم بهی ایک جزو ہیں اس بیداری کا۔ ہمارا محاذ ایک تو ہمارا ملک ہے، پهر اس میں تعلیم، تربیت، اقتصاد اور سیاست ہر میدان میں اس پیغام کی روح برقرار رکهتے ہوئے کام کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ دوسری ذمہ داری نصرت ہے، دنیا میں برپا ہونے والی تحریکوں کی، دنیا کے دیگر گوشوں میں برپا ہونے والی حقیقی اسلامی تحریکوں کے متعلق جو استعماری پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، اس کا مقابلہ ایسے ہوسکتا ہے کہ دشمن یا استعمار جس سیاست کو فروغ دیتا ہے، ہم اسکے مقابلے میں الہٰی سیاست کو فروغ دیں اور تعلیم کے میدان میں اسلامی نظام کو متعارف کروائیں، تب ہی دشمن کے مقاصد کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ ہر میدان میں اسی روح کیساته کام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ کربلا ظلم ستیزی کا درس دیتا ہے، نہ خود ظلم قبول کریں اور نہ کسی ظالم کی حمایت کریں، ہماری ذمہ داریوں میں سے ہے کہ مظلومین جہاں کے حق میں آواز بلند کریں۔


اسلام ٹائمز: کربلا عبارت ہے، جہاد، مجاہدہ، استقامت اور سرخ موت یعنی شہادت سے، بدقسمتی سے القاعدہ، طالبان اور اب داعش جیسی تنظیمیں بهی شہادت اور اسلامی نظام کا نعرہ لگاتے ہیں، انکا کوئی ربط نہیں کربلا سے، لیکن عام آدمی کے لئے انکی حقیقت کو سمجهنے کا معیار کیا ہے؟
مولانا عمران حیدر: سب سے بڑا معیار انسانی اقدار ہیں۔ اسلامی اصول ہیں۔ تکریم انسانیت ہے۔ اللہ کے لئے قیام کرنے والے ان اصولوں سے انحراف کا شکار نہیں ہوتے۔ لیکن القاعدہ، طالبان اور ان جیسے گروہ جیسے داعش ہے، انکا سرے سے کوئی تعلق نہیں اسلامی اصولوں سے۔ حقیقی طور پر اللہ کے لئے قیام کرنے والے حق بوسیلہ حق کو مدنظر رکهتے ہیں۔ وہ بے گناہوں، کلمہ پڑهنے والوں کو بے دردی سے قتل نہیں کرسکتے۔ جبکہ ان مذکورہ گروہوں کی اساس ظلم پر ہے۔ انکا کربلا سے کوئی ربط نہیں، امام حسین علیہ السلام کے قیام کی اساس اسلامی اصولوں پر ہے، جہاد کا ایک دائرہ کار ہے، اسکے ضوابط ہیں، اسکی شرائط ہیں، وہ سارے کے سارے پیش نظر ہوتے ہیں، ان حدود میں رہتے ہوئے انسانیت کے راستے میں رکاوٹ بننے والے جو پتهر ہوتے ہیں، جہاد صرف انہی کی صفائی کرتا ہے، نہ یہ کہ جو ہر بے گناہ اور معصوم کو ظلم کا نشانہ بنائے، یہ تو پهولوں کو مسل رہے ہیں، ایسے لوگوں کے متعلق تو قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ یہ زمین میں فساد پهیلا رہے ہیں۔ جو حسینی ہیں وہ فساد نہیں پهیلاتے، وہ یزیدی ہیں جو کسی قاعدے اور اسلامی ضابطے کا خیال نہیں رکهتے۔ انکی اساس ظلم ہے، یہ قرآن اور اللہ کی تعلیمات کو اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں، ان کا لبادہ تو مجاہدین کا ہوسکتا ہے، لیکن یہ امریکہ اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں، یہ امریکہ کو تقویت دے رہے ہیں اور امریکہ انہیں تقویت دے رہا ہے۔