حضرت امام خمینی(ره) کے سیاسی اخلاق کی مہک

حضرت امام خمینی(ره) کے سیاسی اخلاق کی مہک

دیگراں اور ایک عارف کے علم میں بڑا فرق ہے، اگر دوسرے انسان جانتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کے مقابلہ میں تکبر کرنا خطا اور مذموم ہے، لیکن عارف نے اسے تجربہ کیا ہے اور اس پر مکمل یقین رکهتا ہے۔

عام انسان، مختلف میدانوں میں اپنی ذات کو مرکزی حیثیت و کردار کے طور پر تعارف کرتا ہے، لیکن حضرت امام ایسا کرنے سے باز رہتے تهے، کبهی اُمت کو اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتے اور کبهی مجاہد ومبارز مسلمان اُمت کو کلیدی حیثیت متعارف کرتے تهے اور یہاں تک کہ کچه موارد میں دوسروں کو مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتےتهے۔

پرتال امام خمینی(رہ) کے مطابق حجۃ الاسلام مسیح بروجردی نے کہا: حضرت امام کے افکار ونظریات کو سمجهنے اور ان کی عظیم شخصیت کے مختلف پہلوؤں تک پہنچنے کےلیے سب سے بنیادی مسئلہ خود حضرت امام کے سیاسی اخلاق کو سمجهنا چاہئے۔ آپ کے اخلاق کو گہرائی کے ساته سمجهے بغیر، آپ کی سیاست کا واقعی نگاہ سے جائزہ نہیں لےسکتے ۔

اس سلسلہ میں، بہت سے بنیادی سؤالات سامنے آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا جواب دینے کے لئے علمی تحقیقات اور خود امام کے مستند نظریات پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

آپؒ کی کونسی اخلاقی خصوصیات، سیاسی فیصلوں میں دخیل تهیں؟

اور ان اخلاقی خصوصیات کے بارے میں خود امام کی کیا نظریہ ہے؟

کونسی اخلاقی صفت عوام کے سیاسی مسائل سے مربوط ہے؟

عہداروں اور حکومتی کارندوں کے خلقیات کس حد تک مملکت داری میں موثر ہے؟

اور کس رفتار وکردار ورویہ حکومتی نظامت کو فساد وتباہی کی طرف پهلا قدم ہے؟

اخلاق اسلامی کو مدنظر رکهتے ہوئے سیاسی مفاہیم کی کیا تعریف ہے؟

امام(رح)، سیاست کے میدان میں کس طرح اور کس حد تک اسلامی اخلاق کے پابند تهے اور کیوں۔۔۔؟

اور۔۔۔ اس کے علاوہ اور بهی بہت سے ایسے بنیادی سؤالات ہیں جو اس سلسلہ میں اُٹهائے جاتے ہیں۔

ہم میں اخلاق، ایسا برتاؤ اور سلوک ہے جو عادت یا بعض نفسانی خصوصیات سے جنم لیتا ہے لیکن اُس اخلاق کا انسان کی ذات میں راسخ ہوجانا اور آدمی اس کا پابند رہنا اس کے کئی درجات ہیں جہاں بہت سے انسان خاص مواقع میں، اپنی اچهی وپسندیدہ عادت اور سیرت کو بهولا دیتے اور ناشایستہ برتاؤ کرنا لگتا ہے۔

جہاں بڑے انسان اور عظیم شخصیات کا سلوک اور برتاؤ کے آثار وتأثیر کا دائرہ گهرانہ اور معاشرہ سے زیادہ وسیع ہے، اسی لئے بہت سے مواقع ان کی سیرت وعادت کا اچانک بدل جانا بہت سی پریشانیاں اور مشکلا ت کو جنم دیتا ہے جو ناقابل تلافی و جبران ہوتیں ہیں۔

اسی لئے اسلامی حکومت میں حکومتی امور کی ذمہ داری ایسے افراد کے سپرد ہونی چاہیے جو اخلاقی حوالے سے اس عہدہ ومقام پر ہونے کی صلاحیت و اہلیت رکهتے ہوں۔

لیکن یہی اخلاق عرفا حضرات میں دوسرے انداز میں ہے۔ اخلاق عارف کی جان وروح میں گهلا ہوتا ہے۔ اس کی عادت وخصلتیں زبان، آیات اور روایات کی حد تک نہیں ہوتیں یعنی اچهی خصلتیں اور صفات اس کےلئے ’’ملکہ‘‘ بن چکے ہوتےہیں اور یہ سب عارف کی ریاضت نفس اور اپنی جان پر ا پنے ارادہ کی طاقت اور غلبہ رکهنے کا نتیجہ ہے۔

دیگراں اور ایک عارف کے علم میں بڑا فرق ہے، اگر دوسرے انسان جانتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کے مقابلہ میں تکبر کرنا خطا اور مذموم ہے، لیکن عارف نے اسے تجربہ کیا ہے اور اس پر مکمل یقین رکهتا ہے۔

ای میل کریں