ان دنوں قم میں ٹیکسی اور بس نہیں تهے، اور بہت کم تعداد میں صرف بگهیاں ہوتی تهی، جو طالب علم ان کے درسوں میں پہنچنا چاہتے وہ ایک گهنٹہ پیادہ سفر کرتے، انہوں نے استاد سے سیکها تها کہ راستے کو ہم جماعتوں کے ساته مباحثہ میں طے کرنا ہے امام کا درس صبح آٹه بجے شروع ہوتا، وقت کے معاملے میں اتنے حساس تهے کہ اگر کوئی راستے میں بات کرنا چاہتا تو وہ ان کو روکه نہیں پاتا کہ یہ اپنے منزل پر دیر سے پہنچے، بلکہ وہ چلتے چلتے راستے میں ہی ان کے سوالوں کے جواب دیتے تهے۔
گذشتہ مطالب کو سمجهنا اور اس کی تقسیم بندی کرنا
امام ہر موضوع پر درس دینے سے پہلے اس کو نہ صرف یہ کہ مطالعہ اور اس کی تقسیم بندی کرتے بلکہ وہ اس موضوع پر مباحثہ کرتے اور اپنی اجتهادی نظر بهی بیان کرتے اور ایک مخصوص انداز سے اظهار خیال کرتے اور دلائل کو بیان فرماتے، دوسرے لفظوں میں آپ پہلے خود مطالب کو سمجهتے اور ان کی موضوعات میں تقسیم بندی کرتے، یہ خود درس دینے کی ایک بہترین روش تهی جو شاگرد کو محقق بناتی ہے۔
احترام سے فقہا کے مطالب کو نقل کرنا
جب وہ چاہتے کہ کسی مطلب کو دوسرے فقہا سے نقل کریں احترام سے ان کو یاد کرتے، چاہے ان کے فقہی مطلب سے اختلاف نظر بهی رکهتے اور اس سے متفق بهی نہ ہوتے پهر بهی ایک خاص احترام سے اس دانشمند کے نظر کو بیان فرماتے اور پر علمی استدلال سے اس کو مسترد کرتے اور ان کو مرحوم کہہ کر یاد فرماتے، اور بعض اوقات رضوان اللہ تعالی علیہ علماء کے نام کے ساته لگاتے، جو کتابیں آپ کی نظر میں اجتهاد کے لئے قابل استعمال نہیں ہوتی ان کے مصنف کا نام احترام کے ساته لے کر ان کو مسترد کر دیتے، مثلا فرماتے تهے: «روایت «غوالى اللئالى» کی سند نہیں ہے اور اس سے استدلال نہیں ہوسکتا۔