بسم اللہ الرحمن الرحیم
آیۃ اللہ پسندیدہ کا زندگی نامہ
مقدمہ
میں سابق سید مرتضی ہندی اور موجودہ پسندیدہ ہوں۔ میں نے کبهی سوچا بهی نہ تها کہ صاحبان قلم میں، میرا شمار ہوگا لیکن کہتے ہیں: ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے اور شاید تکلیف الہی و شرعی باعث ہوئی کہ میں اپنا مختصر نسب نامہ، جتنا میری نظر میں ہے قطعی دلائل اور موجودہ شواہد کی رو سے اپنے ۸۰برس سے اوپر کے مشاہدات اور خاص معلومات کی روشنی میں، ضبط تحریر میں لاؤں اور میری خاص معلومات کا ذریعہ قبالے، خطوط کی مہریں ، موجود نوشتہ جات ، اطلاعات اور حافظہ میں محفوظ، خاندان اور قوم کے بزرگوں کی باتیں ہیں اور میرا یہ مختصر نسب نامہ انتہائی صحت و حقیقت پر مبنی ہے۔
وعلی اللہ التکلان وعلیہ اتوکل واستعین بہ
سید مرتضی پسندیدہ
۲۳/محرم الحرم ۱۴۰۴ه ق
میری ولادت
میں مرتضی، سیدمصطفی (۱) اور ہاجر خانم(۲) کا بیٹا؛ میری تاریخ ولادت کتاب "جنات الخلود" کی پشت پر میرے مرحوم والد نے بقلم خود اس طرح مرقوم کی ہے: "نور چشم مرتضی حفظہ اللہ کی تاریخ ولادت ۱۳۱۳ ه ق ماہ شوال کی شب سترہ، تقریباً رات گزرنے کے چه گهنٹہ بعد میری ولادت "خمین" میں اسی گهر میں ہوئی جو آج بهی موجود ہے۔
تعلیم
والد کی شہادت کے بعد جب میں سات برس کا تها تو اپنے بهائیوں اور بہنوں کے ہمراہ، گهر میں، مرحوم میرزا محمود افتخار العلماء کے پاس جو روزانہ صبح کو خمین دیہات سے متصل "دامبرہ" سے خمین آتے تهے، عربی اور صرف نحو پڑهنا شروع کیا۔ افتخار العلماء کی غیبت کے زمانہ میں ان کی والدہ جو فاضلہ و عالمہ و کاملہ تهیں ان کی جگہ پڑهاتی تهیں۔ میں نے ان کے پاس خلاصۃ الحساب اور نجوم کی تعلیم حاصل کی ۔ وہ حساب و نجوم و عربی میں ماہر تهیں جنہوں نے اپنے شوہر کے حوزہ درس میں درس پڑها تها اور فاضلہ ہوگئیں تهیں۔
جس مدت میں اپنے والد کے قصاص کے لئے تہران گئے تهے میں اور میرا بهائی سید نورالدین ہندی(۳) شہر کے کنارے، محلہ عباس آباد سے نزدیک، دبستان بازارچہ میں تحصیل کررہے تهے۔
ہمارا چهوٹا بهائی روح اللہ [امام خمینی] والد کی شہادت کے وقت پانچ مہینہ کا تها اور بہت مہربان اور نڈر اور شجاع دایہ "خاور" کی سرپرستی میں تها جو عیال میرزا ہمارے والد کے بندوقچی کی بیوی تهیں۔ ۱۳۲۱ه ق میں، جب میں آٹه برس سے زیادہ کا اور میرا بهائی سید نور الدین ہندی چه برس سے زیادہ کا تها تو خمین ہی میں عمامہ اور لباس روحانیت زیب تن کیا اور ۱۳۲۷ ه ق میں بهائی اور افتخارالعلماء کے ساته مزید تعلیم کے لئے اصفہان گئے۔ مرحوم آقائے نجفی ہمارے بڑے بہنوئی وہاں مدرسہ علامہ طباطبائی میں درس دیتے تهے۔ انهوں نے وہاں ہمارے لئے دو کمرے لئے۔ میں مجموعاً اصفہان میں سات یا آٹه برس رہا کہ اس مدت میں "شرائع" اپنے بہنوئی آقائے رضا نجفی کے پاس پڑهی اور درس مطول و صرف آقا میرزا علی یزدی کے پاس پڑها۔ اس کے بعد آقا سید مہدی جن کے بهائی اسلام باقر مرجع تقلید تهے، کے پاس تعلیم جاری رکها۔
ان دروس کو تمام کرنے کے بعد مرحوم صادق خاتون آبادی کے پاس تلمذ گیا جو اصفہان میں اعلم العلماء میں سے ایک تهے۔ آپ درس خارج بخوبی کہتے تهے، علاوہ برین بہت مودب تهے، اس درجہ کہ درس کے بعد کبهی نہیں فرماتے تهے کہ سمجهے یا نہیں؟ بلکہ کہتے تهے: خوب درس دیا یا نہیں؟ اگر کوئی متوجہ نہیں ہوا تو دوبارہ درس کہوں!
اصفہان میں اقامت کے دوران، عتبات عالیہ کی زیارت کا شوق پیدا ہوا، جو گاڑی کی گئی تهی، گاڑی تو بڑی تهی لیکن سیٹوں سے محروم تهی! اس میں ایک فرش بچها کر اس کے اوپر بیٹه گئے یہاں تک کہ خانقین پہنچے اور وہاں سے نجف و کربلا کے لئے روانہ ہوئے۔ جب کربلا پہنچے تو مرحوم آیۃ اللہ آقا ضیا عراقی (جو اراک کے سلطان آباد سے تعلق رکهتے تهے) عتبات کے بڑے مجتہدوں سے تهے، ہم سے ملاقات کرنے تشریف لائے اور پهر ہم بهی آپ سے ملاقات کے لئے گئے اور آپ سے بہت زیادہ گهل مل گئے اس کے بعد کچه مدت نجف میں رہے۔
خمین واپسی اور شادی
خمین واپسی کے بعد بعض اہل منبر اور امام خمینی اور حکومتی کارندوں کے لئے درس فقہ و کلام و نحو ومنطق کہتا تها اور مسجد میں نماز جماعت پڑهاتا تها۔ یہاں تک کہ سلطان آباد اراک کے لوگوں نے تقاضا کیا کہ اراک میں شرعی محکمہ بهی قبول کروں لیکن چونکہ خود، منصب قضاوت کے لئے حقدار نہیں سمجهتا تها، معذرت کرلی۔ ۲۷برس کی عمر میں مرحوم غلام حسین خان کی دختر سے شادی کی۔ البتہ اس سے پہلے "کمرہ" دیہات کی ایک لڑکی سے شادی کی کہ میرا لڑکا "ناصر الدین" اسی بیوی سے متولد ہوا۔ مشارالیہ نے اپنی اعلی تعلیم تہران اور جرمن میں تکمیل کی۔ انهوں نے مرحوم ڈاکٹر مصدق اور ان کے معاونین کے ساته کام کیا اور ۲۸/مرداد ۱۳۳۲ ه ش (۱۹ اگست ۱۹۵۳) کی بغاوت کے بعد کام سے فارغ اور معزول کردی گئیں اور ۱۳۵۰ ه ش میں مشہد مقدس میں پوشیدہ طریقے سے قتل کردی گئیں۔
آغا خانم ہندی محترمہ ہمدم آغا سے بهی محمد رضا اور محمد تقی نامی دو لڑکے اور بدرالسادات، فروغ السادات اور نزہت السادات نامی تین لڑکیاں متولد ہوئیں۔
والسلام و منہ التوفیق
.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-
۱] ہمارے والد ، شہید آقا مصطفی بن سید احمد ہندی بن دین علی شاہ ۲۹/رجب المرجب ۱۲۷۸ه ق بروز جمعرات طلوع آفتاب کے وقت خمین میں اسی گهر میں پیدا ہوئے جس میں بعد، میں اور میرے تمام بهائی اور بہنیں متولد ہوئے۔ والد ماجد اپنے والد مرحوم سید احمد ہندی اور والدہ مرحومہ سکینہ خاتون کی آغوش تربیت میں پروان چڑه رہے تهے کہ ۸ برس کی عمر میں والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے ۔ آپ کی تعلیم کی ابتدا خمین سے ہوتی ہے اس کے بعد اصفہان اور آخر میں نجف اشرف تشریف لے جاتے ہیں اور ۱۳۱۲ه ق میں اجازہ اجتہاد کے ساته خمین واپس ہوتے ہیں۔
میرے والد بہت نافذ البصیرت اور صاحب املاک تهے۔ آپ چند ایک بندوقچی بهی رکهتے تهے اور اس دور کی حکومت اور اس کے گماشتوں کے مظالم کی روک تهام میں بہت پیش پیش رہے تهے۔ اس وقت خمین میں خوانین [خان کی جمع] تین گروہوں میں تقسیم تهے جن میں سرفہرست "حشمت الدولہ" کمرہ کے علاقے میں تها۔ خوانین [خان برادری] جہاں کہیں بهی ظلم کرتے تهے والد بنفس نفیس اقدام کرتے تهے یا اتابک اور صدراعظم سے رجوع فرماتے تهے اور وہ اقدام کرتے تهے اور علاقائی حکومت کو ان سے نمٹنے کا حکم دیتے تهے۔ ۱۳۲۰ه ق میں عضد السلطان بن مظفر الدین شاہ قاچار معروف بہ "ابوالفضل" والی اراک تهے اور خمین کا نائب الحکومت بهی ان کے زیر نظر کام کرتا تها اس سال خان بے انتہا ظلم ڈها رہے تهے اور خمین کے حالات بہت خراب تهے۔ والد ماجد جب حالات کو ناگفتہ بہ دیکهتے ہیں تو والی کو اس صورتحال سے آگاہ کرنے اور اس سے مدد مانگنے کے لئے دس پندرہ بندوقچیوں کے ہمراہ اراک روانہ ہوتے ہیں۔ راستے میں ایک رات گزارتے ہیں؛ دوسرے روز، بارہ ذیقعدہ، اس حالت میں کہ آپ آگے تهے اور اسلحہ بردار سوار، آپ کے پیچهے رہ گئے تهے، جعفر قلی خان اور میرزا قلی سلطان جو خانوں کی جماعت سے تعلق رکهتے تهے، پہنچ جاتے ہیں اور سامنے سے والد ماجد سید مصطفی پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ایک گولی اس قرآن کو جو آپ کی جیب میں تها،سوراخ کرتے ہوئے، آپ کے دل پر لگتی ہے اور آپ ۴۲برس کی عمر میں جان بہ جان آفرین کے سپرد کرتے ہیں اور آپ کی لاش بعد میں نجف اشرف منتقل کردی جاتی ہے۔
۲] والد ہ ماجدہ، مرحومہ ہاجر آغا بنت آقا میرزا احمد مجتہد جو مرحوم ملا حسین خوانساری کے پوتے تهے، ۱۳۰۰ه ق میں والد ماجد آقا مصطفی کے ساته خمین میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتی ہیں اور اپنی پہلی اولاد ۱۸/جمادی الثانیہ ۱۳۰۵ ه ق کو دنیائے دنی کے حوالے کرتی ہیں۔ مرحومہ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تهیں:
۱۔ مولود آغاخاتون ۔ ۲۔ فاطمہ خاتون۔ ۳۔ آغاز ادہ خاتون۔ ۴۔ آقا مرتضی [پسندیدہ] ۔ ۵۔ آقا نورالدین ہندی۔ ۶۔ روح اللہ [ امام خمینی رح]
والد ہ مرحومہ کے سرپر تقریباً ۲۰ برس تک مرحوم والد صاحب کا سایہ رہا اور جوانی میں آپ کے شوہر آقا مصطفی شہید ہوگئے۔ آپ ایک مدت تک شوہر کے ساته نجف میں رہیں اور پهر خمین آئیں اور خانہ داری، چه اولادوں کی تربیت اور شوہر داری میں مشغول رہیں۔
۳] ہمارے بهائی، سید نور الدین ہندی ۲۷/رمضان المبارک ۱۳۱۵ه ق میں خمین میں متولد ہوئے اور ۱۳۲۰ه ق تک والدین کے سایہ عاطفت میں رہے اور والد کی شہادت کے دوسرے سال محمد حسین خان کے گهر میں [کہ ہمارے پهوپهی زاد بهائی صارم لشکر کا گهر تها] محترم افراد کے مجمع میں ان کا لباس ۶ برس کے سن میں عمامہ و عباو قبا میں تبدیل ہوگیا لیکن ان کی رفتار طفلانہ تهی۔
۱۳۲۷ه ق میں ایک ساته تعلیمی سلسلے کو آگے بڑهانے کے لئے اصفہان گئے، آقائے ہندی نے اصفہان سے مراجعت کے اوائل میں ۱۳۴۰ه ق کے کچه بعد "سیارہ خانم" نامی سے شادی کرلی اور اس بیوی سے آقا محمد، اقدس خانم اور منظم خانم متولد ہوئیں۔ اقدس خانم حقیر کی بہو اور مرحوم ناصرالدین ہندی کی بیوی تهی جو ۱۳۵۰ ه ق میں رات کے وقت مشہد مقدس میں قتل کردی گئی۔
مرحوم ہندی نے حاجیہ خانم سے شادی کی جو کمرہ کے حسابدار کی دختر نیک اختر تهیں ان سے منصور، مسعود، محسن اور مہدی، چار لڑکے اور حاجیہ زینت متولد ہوئی۔ مرحوم ہندی نے اوائل میں کهیتی باڑی کا کام شروع کیا اور رضا خان اور سید ضیاء کی بغاوت کے بعد جوانی میں خمین کی عدلیہ کے رئیس مقر ر ہوئے اور مرحوم آقا میرزا علی محمد امام جمعہ کہ ہم سے بڑے اور ہمارے پهوپهی زاد بهائی تهے، فقیہ عدلیہ کے عنوان سے منتخب ہوئے، اس کے بعد مرحوم آل شہید جو بہت صالح آدمی تهے، خمین اور عدلیہ کےلئے متعین ہوئے اور صدر ادارات و مقامات قرار پائے۔
آقائے ہندی عدلیہ سے برکنار ہونے کے بعد، ان کی گرفتاری کا حکم بهی صادر ہوا؛ سبب دریافت کیا تو جوا ب ملا: "اگر جعل سازی کا اقرار کرلو تو گرفتاری کا حکم واپس لے لیا جائے گا"! مشار الیہ جو امور عدلیہ سے بخوبی واقف تهے، لکهتے ہیں:"میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے اس نامہ یا ورقہ کو حقوقی معیاورں کے مطابق جعل کیا ہے"۔ اس بناپر گرفتاری کا حکم منسوخ ہوگیا اور نورالدین آزاد ہوگئے۔
۱۳۰۲ ه ق، سردار سپہ کے دور میں نورالدین اور بعض دیگر افراد حکومتی گماشتوں کے زیر نگرانی تهے۔ مرحوم ہندی کی شدت کے ساته نگرانی کی وجہ ان کے بختیاریوں سے زیادہ روابط کو بتایا جاتا ہے چونکہ رضا خان ڈرتا تها کہ بختیاری اس کے خلاف بغاوت کردیں گے۔
آقا ہندی ایک وقت تہران جاتے ہیں تو خود کو دروازہ شہر ری کے گماشتوں کے سامنے پیش کردیتے ہیں پهر امیرمفخم کے گهر دو تین دن گزارتے ہیں۔ ایک دن ایک دوست جو نظمیہ میں تها، ان کو احتیاط برتنے کے لئے کہتا ہے کیونکہ مامور ہمیشہ تمہارے پیچهے لگا ہوا ہے! سرانجام مرحوم ہندی کو انتظامیہ طلب کرتی ہے اور ان سے بازپرس کی جاتی ہے اور ان کو تہران سے باہر نہ نکلنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ البتہ یہ رکاوٹ کچه مدت کے بعد ختم ہوجاتی ہے اور آپ خمین لوٹ آتے ہیں۔ ایک دن، میں، نورالدین کے گهر میں نماز ظہر و عصر میں مشغول تها، بیک وقت، وحشتناک آواز سے نماز توڑی، دروازہ کی طرف دوڑا، دیکها کہ مرحوم ہندی کے سینہ یا پہلو سے فوراہ کی طرح خون بہہ رہا ہے۔ بتایا گیا کہ فلاں شخص نے چاقو کا وار کیا ہے۔ میں بہت مضطرب ہوا اور خون سے رنگین ہاته سے نظمیہ اور ڈاکٹر کو فون کیا۔ انتظامیہ،عدلیہ اور ڈاکٹر آئے، علاج شروع ہوا۔ آقائے ہندی نے ان سے کہا: میں حملہ آور سے صرف نظر کیا اس کا پیچها نہ کریں۔
انهوں نے کہا: یہ نظم عمومی میں اختلال ہے، اس لئے اس کو تلاش کیا جائے گا۔
طبیب نے کہا: چاقو کے وار نے پهیپهڑوں تک اثر کیا ہے ۔ زخم کاری ہے؛ فوراً تہران منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔
فوراً تہران ویلا اسپتال میں داخلہ کر کے آپریشن شروع ہوا۔
موسم گر ما میں حوزہ علمیہ قم میں چهٹی کی وجہ سے حضرت امام شمیران میں تهے۔ آپ کو اطلاع دی اور دونوں عیادت کرنے گئے۔ آقائے ہندی کا اصرار تها کہ اگر میں مرجاؤں تو دیت نہ لی جائے، میں نے اس کو معاف کردیا ہے!
امام خمینی نے فرمایا: مسئلہ قصاص و دیت وارث سے متعلق ہے- آپ کا معاف کرنا بالکل بے اثر ہے۔
آقائے ہندی کا بظاہر علاج ہوگیا تها لیکن اس زخم کے عوارض کلی طور پر ختم نہیں ہوئے تهے۔
مرحوم ہندی کا اپنے موافق و مخالف کے ساته اچها رویہ تها۔ آپ کا گهر مامن اور مہمان خانہ کی حیثیت رکهتا تها۔ آپ بخوبی اپنی موجودگی میں آنے والوں کی ضیافت فرماتے تهے اور آپ کی غیبت میں آغا "مسیب پارسا" مہمان نوازی کے فرائض انجام دیتے تهے۔