تحریر: نذر حافی
1750ء عیسوی میں ایک بادیہ نشین قبیلے کے سردار محمد بن سعود نے محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر حجاز میں ایک نئی حکومت بنانے پر اتفاق کیا۔ محمد بن سعود کے پاس قبیلے کے افراد اور خون تھا جبکہ محمد ابن عبدالوہاب کے پاس امام ابن تیمیہ کے عقائد و افکار تھے۔ اس کے بعد دونوں کے ملاپ سے ایک نئی حکومت کی تحریک نشیب و فراز سے گزرتی رہی۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب برطانیہ و فرانس کو تیل کی طاقت کا اندازہ ہوا تو انہوں نے 1919ء میں مشرق وسطیٰ کو دو حصّوں میں تقسیم کیا۔ اس تقسیم کے نتیجے میں عراق، اردن اور سعودی عرب سمیت کچھ ممالک برطانیہ کے جبکہ ایران، ترکی اور شمالی افریقہ، فرانس کے حصّے میں آئے۔ استعماری طاقتوں نے سعودی عرب میں آل سعود سے، کویت میں آل صباح سے، قطر میں آل ثانی سے، امارات میں آل نہیان سے اور بحرین میں آل خلیفہ سے یہ معاہدہ کیا کہ اگر انہیں حکومت دی جائے تو وہ خطے میں استعماری مفادات کا تحفظ کریں گئے۔
ان معاہدوں کی روشنی میں 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں، جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے، ان پر عبدالعزیز ابن سعود کی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کرکے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔ اس سے پہلے 1930ء میں امریکہ نے سعودی عرب کو اپنے قابو میں کرنے کے لئے J،hn Fillby ایک برطانوی جاسوس ”جان فیلبی” کو اپنے ایک کارندے ارنسٹ فیشر کے ذریعے خرید لیا۔ یہ شخص 1917ء میں برطانیہ کی وزارت خارجہ میں ملازم ہوا تھا اور تقریباً 35 سال تک سعودی عرب میں ابن سعود کا مشیر رہا تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نجد میں قدم رکھنے والا یہ پہلا یورپی باشندہ ہے۔ یہ اپنے زمانے کا ایک بہترین لکھاری اور مصنف بھی تھا اور اس کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔
اسے مشرق وسطیٰ کے بارے میں حکومت برطانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف تھا، جب یہ اختلاف شدید ہوگیا تو 1930ء میں اس نے برطانوی سفارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے استعفیٰ دیتے ہی اس کی تاک میں بیٹھے امریکی کارندے نے اس گلے لگا لیا۔ اس نے ابتدائی طور پر تیل نکالنے والی ایک امریکی کمپنی میں مشاور کی حیثیت سے کام شروع کیا اور خاندان سعود سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تیل نکالنے کا ایک بڑا منصوبہ منظور کروایا، جس سے برطانیہ کی بالادستی کو دھچکا لگا اور خطّے میں امریکی استعمار کی دھاک بیٹھ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ و سعودی عرب دونوں اپنے تعلقات کے سلسلے میں جان فیلبی کی خدمات کے معترف ہیں۔ سعودی عرب کے برطانیہ کے بجائے امریکہ سے تعلقات جان فیلبی کے مرہون منت ہیں۔
یاد رہے کہ سعودی عرب کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی وجہ سے حرمین شریفین بھی کہا جاتا ہے۔ حرمین شریفین کی وجہ سے جہان اسلام کے اصیل اور حقیقی تاریخی آثار بھی سعودی عرب میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ آج سے تقریباً 98 سال قبل یعنی 1344ھ/1926ء میں 8 شوال کو مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ میں پائے جانے والے مقبروں اور مزارات کو مسمار کر دیا گیا تھا۔ اب تک جنت البقیع میں سرکارِ دو عالم کے اصحاب اور ان کی آل کے مزارات کی توہین کی گئی اور منہدم کر دیئے گئے، جدہ میں مقبرہ حوا کو کنکریٹ سے بند کر دیا گیا، دار الارقم نامی وہ پہلی درسگاہ جس میں نبی پاک نے تعلیم دی، مدینہ میں بی بی فاطمہؑ کا گھر، مدینہ میں امام جعفر صادقؑ کا گھر، بنو ہاشم کا محلہ صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔
1998ء میں نبی کی والدہ بی بی آمنہ کے مقبرے اور قبر کو گرانے کے بعد نظر آتش کر دیا گیا، مدینہ میں نبیﷺ کے والد کی قبر مٹا دی گئی، امام علی کا وہ گھر جس میں امام حسن اور امام حسین کی ولادت ہوئی، اسے مٹا دیا گیا، وہ گھر جس میں 570 میں نبی کی ولادت ہوئی، گرانے کے بعد اس کو مویشی بازار میں منتقل کر دیا گیا، نبی کی پہلی زوجہ بی بی خدیجہ کا گھر جہاں قرآن کی کچھ پہلی آیات کا نزول ہوا، وہاں پر غسل خانے بنا دیئے گئے، مکّہ سے ہجرت کے بعد مدینہ میں جس گھر میں نبی اکرم نے قیام کیا، اسے بھی گرا دیا گیا، حضرت حمزہ کی قبر سے منسلک مسجد گرا دی گئی، مسجد فاطمہ زہراء، مسجد المنارا تین، امام جعفر صادق کے بیٹے سے منسوب مسجد اور مزار جس کو 2002ء میں گرایا گیا۔
مدینہ میں جنگ خندق سے منسوب 4 مساجد، مسجد ابو رشید، سلمان الفارسی مسجد مدینہ، رجت اشمس مسجد مدینہ، مدینہ میں جنت البقیع، مکّہ میں جنّت المعلّیٰ، امام موسیٰ کاظم کی والدہ کی قبر، مکّہ میں بنو ہاشم کی قبریں، احد کے مقام پر حضرت حمزہ اور باقی شہداء کے مقبروں کو گرایا گیا۔ اس کے علاوہ بے شمار اہم تاریخی و مقدس مقامات کو منہدم کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے اس وقت صرف حضور نبی اکرمﷺ کا گنبد ہی رہ گیا ہے۔ اس گنبد کو گرانے کیلئے بھی بڑی کوششیں ہوئیں، تاہم امّت مسلمہ کے شدید دباو کی وجہ سے یہ گنبد ابھی سلامت ہے۔ نجدی حضرات کا موقف یہ ہے کہ اسلام کے تاریخی آثار کو باقی رکھنا بدعت ہے۔ تاہم 8 شوّال کو ساری دنیا اُن سے پوچھتی ہے کہ اگر تاریخِ اسلام کے آثار باقی رکھنا بدعت ہے تو پھر کیا مکہ و مدینہ میں عالیشان محلّات، بلڈنگیں، ہوٹل، عیاشی کے مراکز، شراب اور جوا خانے بدعت نہیں ہیں؟ یہ سوال ہر سال 8 شوّال کو نجدی سماج سے پوچھا جاتا ہے۔