یہ افراد جو اپنی خام خیالی کے مطابق لوگوں کو دعا اور ذکر وغیرہ سے پرہیز کرنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ لوگ دنیا دار بن جائیں ، یہ لوگ ہرگز نہیں جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے؟ یہ نہیں جانتے ہیں کہ یہی دعا ومناجات وغیرہ ہی ہیں کہ جو انسان کی اس طرح تربیت کرتی ہیں کہ اسے دنیا سے جس طرح سلوک اختیار کرنا چاہیے، وہ ویسا ہی سلوک اختیار کرتا ہے۔ تمام انبیاء نے تمام مشکلات کا سامنا کیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ سب اہل ذکر وفکر اور اہل دعا ومناجات بھی تھے اور وہی تھے کہ جنہوں نے دنیا میں عدل وانصاف کو قائم کیا اور ان سب ظالموں اور ستمگروں کے خلاف قیام کیا۔ یہی کام امام حسین ؑ نے انجام دیا کہ جنہوں نے روز عرفہ دعائے عرفہ پڑھی اور آپ دعائے عرفہ کو جانتے ہیں کہ وہ کتنی عظیم دعا ہے! یہی دعائیں اور خدا کی طرف توجہ دراصل خدا کیلئے قیام جیسی باتوں کا پیش خیمہ بنتی ہے اور یہی دعائیں ہیں کہ جو انسان کی توجہ مبدأ غیب کی طرف دلاتی ہیں ۔ اگر انسان صحیح انداز سے دعاؤں کو پڑھے تو یہی مبدأ غیبی کی طرف توجہ اس بات کا موجب بنے گی کہ انسان سے دنیوی علائق آہستہ آہستہ کم ہوجائیں ۔ یہ دعائیں نہ صرف یہ کہ مانع از فعالیت نہیں ہیں ، بلکہ انسان بہتر انداز سے اپنی فعالیت انجام دیتا ہے لیکن یہ فعالیت اپنی ذات کیلئے نہیں ہوتی ہے۔ دعاؤں کے پڑھنے سے انسان اس بات کو سمجھ لیتا ہے کہ اسے اپنے اور اپنی دنیا کے بجائے مخلوق خدا کیلئے فعالیت انجام دینی چاہیے کہ جو دراصل خدا کی خدمت وعبادت ہے۔
چونکہ یہ لوگ دعا کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں اس لیے یہ لوگ دعاؤں کی کتابوں پر تنقید کرتے ہیں ، یہ لوگ جاہل ودرماندہ ہیں اور یہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ یہ دعاؤں کی کتابیں کس طرح کا انسان بناتی ہیں ۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ دعائیں جو ہمارے ائمہ ؑ سے نقل کی گئی ہیں ، مثلاً مناجات شعبانیہ، دعائے کمیل، دعائے عرفہ امام حسین (ع)، دعائے سمات وغیرہ، یہ کیسے انسان کی تربیت کرتی ہیں ۔
یہ دعائیں انسان کو ظلمت وتاریکی سے نکالتی ہیں اور جب انسان ظلمت وتاریکی سے باہر آجائے تو ایک ایسا انسان بن جاتا ہے کہ جو صرف خدا کیلئے کام کرتا ہے، اس کے سارے امور خدا ہی سے متعلق ہوتے ہیں ، وہ تلوار چلاتا ہے تو خدا کیلئے، قتل کرتا ہے تو خدا کیلئے اور اگر قیام کرتا ہے تو وہ بھی اپنے پروردگار کیلئے۔ نہ یہ کہ یہ دعائیں انسان کو ناکارہ اور نکما بنا دیتی ہیں جیسا کہ یہ (مخالف) افراد کہتے ہیں ۔ یہ افراد ایک وقت ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ جب انہیں حقیقی اور غیبی باتیں بھی فرضیات نظر آنے لگتی ہیں ۔ یہی دعائیں ، خطبے، یہی نہج البلاغہ، یہی مفاتیح الجنان اور یہی دعاؤں کی کتابیں ہیں جو انسان کو کامل بنانے میں اس کی مدد کرتی ہیں اور جب ایک انسان، کامل ہوجائے تو وہ ان تمام باتوں پرعمل کرتا ہے، وہ کھیتی بازی بھی کرتا ہے لیکن خدا کیلئے اور وہ جنگ بھی کرتا ہے تو صرف خدا کیلئے۔
(تفسیر سورۂ حمد، ص ۱۵۰)