تلاوت قرآن کے تربیتی اثرات

تلاوت قرآن کے تربیتی اثرات

حضرت صادق آل محمد (ع) کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جو کوئی قرآن کی بہت زیادہ تلاوت کرے اور اس کے معانی وتعلیمات کی حفاظت کیلئے جدوجہد کرنے کا تجدید عہد کرے تو خداوند عالم اسے دو اجر عطا فرماتا ہے‘‘

قرآن کریم خدا کا منفرد کلام ہے، اور ان تمام مخلوقات میں سے اس کے سامعین انسان ہیں، قرآن ایک آسمانی اور مکمل طور پر غیر انسانی کتاب کے طور پر، اللہ کی طرف سے اور غیب کی دنیا سے نازل کیا گیا ہے؛ جو بھی قرآن پڑھتا ہے یا جس پر بھی اسے پڑھایا جاتا ہے، اس کے روحانی کلام سے بہت متاثر ہوتا ہے، اسے پڑھتے ہوئے کبھی تھکتا یا بور نہیں ہوتا، بلکہ ہر لمحہ اس شخص کو اپنی طرف کھینچتا ہے جس کا دل قبول کرنے والا اور صاف دل ہوتا ہے۔ قرآن کے بارے میں امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:

 

حضرت صادق آل محمد  (ع) کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جو کوئی قرآن کی بہت زیادہ تلاوت کرے اور اس کے معانی وتعلیمات کی حفاظت کیلئے جدوجہد کرنے کا تجدید عہد کرے تو خداوند عالم اسے دو اجر عطا فرماتا ہے‘‘۔ اس حدیث سے انداز ہوتا ہے کہ جو چیز تلاوت قرآن میں  مطلوب وپسندیدہ ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت (اور اس کے معانی وتعلیمات) انسانی قلب کی گہرائیوں  میں  اتر جائیں ، اس کا باطن کلام الٰہی کی صورت اختیار کرلے اور انسان ’’ملکہ‘‘ (پختہ عادت اور رگ وپے میں  بسنے والی صفات) کے مرتبہ سے گزر کر تحقق وعمل کے مرحلے میں  قدم رکھے۔ یہ بات اس حدیث کی جانب اشارہ ہے کہ جس میں  معصوم  ؑ نے فرمایا  ہے کہ ’’اگر کوئی با ایمان نوجوان قرآن کی تلاوت (اس کے معانی وتعلیمات کی طرف توجہ کے ساتھ) کرے تو قرآن اس کے گوشت وخون میں  داخل ہوجاتا ہے‘‘۔

 یہ حدیث اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ  قرآن (اور اس کے معانی وتعلیمات اور اس کا نور) قاری کی جان وروح میں  اس طرح رچ بس جائے کہ خود انسان کا باطن (جان وروح) اپنی لیاقت واستعداد کے مطابق کلام الٰہی کی صورت اختیار کرلے۔ حقیقی حامل قرآن وہی ہے کہ جس کا باطن کلام الٰہی کی حقیقت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہو۔ خود قرآن بھی تمام صفات حمیدہ، اخلاق فاضلہ، ملکات حسنہ اور کمالات مطلوبہ کا جامع اور حق وباطل اور حق وغیر حق کے درمیان دلیل قاطع ہے۔ جیسا کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب  ؑ اور ان کی اولاد میں  تمام ائمہ طاہرین  ؑ ہیں  کہ جو آیات الہیہ کی منہ بولتی اور جیتی جاگتی تصویر اور متحرک قرآن ہیں ۔ یہی ہستیاں  خدا کی عظیم آیات اور مکمل قرآن ہیں ۔

(چہل حدیث، ص ۴۹۸)

 

یہ بات بہت واضح ہے کہ اگر کوئی قرآن کے معانی ومطالب میں  تفکر وتدبر کرے تو قرآن اس کے دل پر اثر کرے گا اور وہ مختلف مراحل طے کرتا ہوا آہستہ آہستہ متقین کے مقام تک پہنچ جائے گا۔ اگر خدا کی توفیق اس کے شامل ہو تو وہ اس مقام سے بھی آگے بڑھ جائے گا اور شاید اس کے تمام اعضا وجوارح اور قوتیں  آیات الہیہ میں  سے ایک آیت کی شکل اختیار کرلیں ، شاید خدا کے آتش عشق کی عطا کردہ چنگاری، خدا کیلئے خدا ہی کا عنایت کردہ جذبہ وتڑپ اور خدا کا کلام وخطابات اسے خود سے بے خود کردیں  کہ وہ {اِقْرأ وَاصْعَد} (قرآنی آیات کی تلاوت کرو اور ہر آیت کے عوض ترقی کرتے جاؤ) کے اخروی انعام کو اس دنیا میں  پالے تاکہ قرآن کو بغیر کسی واسطہ اور ذریعہ کے خود اس کے متکلم سے سنے کہ جس کا وہم وگمان میں  بھی ہم تصور نہیں  کر سکتے ہیں۔

(چہل حدیث، ص ۵۰۰)

ای میل کریں