حضرت فاطمہ زہرا (س) کے انسانی فضائل و کمالات
حضرت رھرا (ع) کو انسانی فضائل و کمالات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس خاتون کی عظمت کے بارے میں کیا بیان جاسکتا ھے جس کے متعلّق رسول اکرم (ص) نے بارھا ارشاد فرمایا ھے:"إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ" بیشک خدا نے تمہیں چن لیا ھے اور پاکیزہ بنادیا ھے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دے دیا ھے.
اگر جناب فاطمہ زھرا (س) کے فضائل کے لئے سورہ کوثر کے علاوہ قرآن میں کچھ بھی نازل نہ ھوتا تو وھی ان کی فضیلت کے لئے کافی تھا کہ کہا جائے، خدا کے نزدیک تمام عالمین کی عورتوں سے افضل اور برتر ھیں ۔ " إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ " (اے پیغمبر!) بے شک ھم نے آپ کو کوثر عطا کیا ھے، لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں، یقینا آپ کا دشمن بے اولاد رھے گا ۔
حضرت فاطمہ زهرا سلام الله علیھا اس عظیم خاتون کا نام هے جو اصول و قوانین اسلامی سے آگاه نیز اخلاقی اصول آداب سے آشنا تھیں، آپ قرآنی آیتوں اور ان کی تلاوت کی حلاوت کے ساتھ ساتھ، ان میں غور و فکر اور تفکّر و تدبّر سے مانوس تھیں، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم کی سیرت اور نورانی کلام کے ذریعہ پسندیده اخلاق و اطوار سے آگہی رکھتی تھیں اور بچپن هی سے تمام خواتین و انسانیت کے لئے اسوہ حسنہ اور کامل نمونہ تھیں، اصل اسلامی اخلاق و آداب کی اقدار ۔ کے متعلق کثیر معلومات اور معارفِ دین کے متعلّق مختلف اعتبار سے بہت عمیق و گہری نظر کی وجہ تمام جوانب و اطراف پر وسیع نظریہ کی حامل تھیں ۔ اس طرح کہ آپ کی سیرت و کلام گہربار میں دسیوں سبق آموز اور معرفت کے نکتے پائے جاتے هیں جو تہذیب و تربیت کے دلداده و شیفتہ لوگوں کے لئے قیمتی و جاودانی زادِ راه قرار پاتے ھیں اور قرار پائیں گے، هم ان میں سے بعض نورانی کلمات پر نظر ایک طائرانہ نظر ڈالتے هیں:
۱ ۔ اجتماعی اخلاقیات:
سماج و معاشره کا پھیلاؤ اور اس کی وسعت، ایک بیکراں سمندر کے مانند دکھائی دیتی هے، اس کی بزرگی و عظمت هرطرف جاذبِ نظر اور خیره کر دینے والی هے، لیکن سماجی و اجتماعی مناسبتوں اور لوگوں کی ایک دوسرے کی ضرورتیں اس سمندر کو دریاؤں، نہروں، جوئباروں اور تالاب و چشموں کی صورت میں بنا دیتی هے، جو انسانوں کی نشست و برخاست، آمد و رفت اور تعلّقات کو زیاده سے زیاده بڑھا دیتی هے اور جو چیز اس شیوه کو آبادی کے انبوه اور کثرت میں نسیم صبح، سلامتی، مٹھاس اور حلاوت سے همکنار کرتی هے وه اجتماعی اخلاقیات هیں ۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں هے کہ جب آسمانِ عصمت سے بارش کے قطرے انسانوں کی روحانی آغوش میں آئیں گے تو اس کی تاثیر بھی بہت بلند و بالا اور پاک و پاکیزه رهے گی ۔
خنده پیشانی یا هنس مکھ چہره اور خوش اخلاقی جس کو (خوش روئی) سے تعبیر کیا جاتا هے یہ بہت گرانقدر کیمیا شیئے کا نام هے جو مختلف انسانوں کے درمیان زندگی کے هر میدان میں ۔۔ هر سلیقہ، مذهب اور فرقہ کے افراد کے ساتھ ۔۔ نہایت درجہ کارآمد رها هے اور معصومین علیھم السلام کے کلام میں اس کی مسلسل تاکید کی گئی هے ۔
حضرت ختمی مرتبت (ص) کی بیٹی جناب فاطمہ زهرا (سلام الله علیها) نے اپنے مختصر نورانی کلام میں اس حقیقت کی بلندی کو اس طرح بیان کیا ھے: "بِشْرٌ فِي وَجْهِ الْمُؤْمِنِ يُوجِبُ لِصَاحِبِهِ الْجَنَّةَ وَ بِشْرٌ فِي وَجْهِ الْمُعَانِدِ المُعَادِی يَقِي صَاحِبَهُ عَذَابَ النَّارِ، مومن سے خوش روئی و خندہ پیشانی سے پیش آنا جنّت کا باعث ھے اور جھگڑالو دشمن سے خوشی و خندہ پیشانی سے پیش آنا آتش جہنم سے نجات دلاتا ھے
۲ ۔ گھریلوں اور ازدواجی اخلاقیات:
زندگی ایک ایسا مرکز هے جس میں بہت زیاده نشیب و فراز پائے جاتے هیں، اس خوشیاں اور دکھ درد، نالہ و شیوں بھی دیکھے جاتے هیں ۔ عورت و مرد کی بصیرت، باریک بیں نگاهیں اور دونوں کے اغراض و مقاصد سختیوں کو آسان اور ناهمواریوں کو هموار بنا دیتے هیں، اس طرح کہ ان دونوں میں سے هر ایک حادثوں کا استقبال کرتے هیں اور بھرپور سعی و کوشش کے ذریعہ زندگی میں اطمینان و سکون، صدق و صفا، صمیمیت اور مهربانی قائم رکھتے هیں ۔
لوگوں کے ساتھ انبیاء (ع) کے منطقی، دلسوزی اور مهربانی کے تعلّقات، رسولوں و رهنماؤں کے حُسن خُلق اور احسان کے کیمیائی نقش و کردار کو فکری تهذیب و ثقافت کی تجلّی یعنی "انبیاء (ع) کے اخلاق کے آئینہ" میں بیان کیا گیا هے ۔حضرت فاطمہ زهرا سلام الله علیھا اس میدان میں ایک کامل اسوہ و نمونہ هیں وه عھد طفولیّت سے مشکلوں و سختیوں میں رهی هیں، شعب ابوطالب میں تین سال کی سختیاں اور کفر و نفاق کے سرداروں سے اتنا سخت مقابلہ جو بڑے سے بڑے بہادورں کے پتہ کو پانی کردیتا تھا مگر خدا پر ایمان و عشق کی قوّت نے نوجوانوں اور جوانوں کو اتنی قوت عطا کی تھی کہ اپنی پاک طینت طبیعت اور روحانی طاقت سے ایک ایک کر کے تمام مشکلوں پر فتح و غلبہ حاصل کرلیا۔ اور جب شوهر کے گھر میں قدم رکھتی هیں تو سختیوں سے نمٹنے کے ایک نئے معرکہ کا آغاز هوتا هے اس وقت آپ (س) کی "شوهرداری اور گھریلو زندگی کے اخلاقیات" کھل کر سامنے آتے هیں ۔ ایسا نہیں هے کہ صرف چین و سکون، رفاه، خوشی اور امکانات کی فراوانی میں اپنی زندگی اور شوهر سے رضا و خوشنودی کا اظهار کریں!!۔ ایک دن امام علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زهرا سلام الله علیھا سے کھانا طلب کیا تاکہ ابھی بھوک کو برطرف کرسکیں، جناب فاطمہ سلام الله علیھا نے جواب دیا: میں اس خدا کی قسم کھاتی هوں کہ جس نے میرے والد کو نبوّت اور آپ کو امامت کے لئے منتخب کیا هے، دو دن سے گھر میں وافی مقدار میں غذا نہیں هے اور جو کچھ غذا تھی وه آپ (ع) اور اپنے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) کو دے دیا اور میں نے تھوڑی سی غذا سے بھی استفاده نہیں کیا هے۔ امام علیہ السلام نے بڑی حسرت سے فرمایا: اے فاطمہ (س)! آخر مجھ سے کیوں نہیں بتایا کہ میں غذا فراهم کرنے کے لئے جاتا؟ جناب فاطمہ سلام الله علیھا نے عرض کیا:اے ابوالحسن (ع)! میں اپنے پروردگار سے شرم و حیا کرتی هوں کہ جس چیز پر آپ کی توانائی نہیں هے میں اس چیز کی درخواست کروں ۔
3- سیاسی اخلاقیات:
حضرت زهرا سلام الله علیھا کے سیاسی اخلاقیات کو درج ذیل عناوین کے تحت دیکھا جاسکتا هے جیسے "امام اور حجت خدا کا دفاع"، "امامت و رهبری امام علی علیہ السلام کی کامل پیروی اور فدک کے متعلّق مختلف میدان میں مبارزه"، اور "جنگ و جهاد کے بندوبست میں خوشی و دلسوزی سے حاضر رهنا" وغیره اور آخرکار اس صحیفہ کا آخری صفحہ خاتون جنّت کے خون کی سرخی سے رنگین هوگیا، اور حضرت فاطمہ زهرا سلام الله علیھا کی شهامت و شجاعت کی نشانی همیشہ کےلئے میدان شهادت میں ثبت هو گئی ۔ سب سے پہلے آپ (س) اپنے غصب شده حق کو گفتگو سے حل کرنے کی کوشش کی اور قرآن کریم کی مختلف آیتوں سے دلیلیں قائم کیں، جس کے نتیجہ میں خلیفہ اول فدک کو واپس کرنے کے لئے تیار هوگیا تھا۔
جب اپنے زمانے کے امام حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کلام کر رهی تھیں تو آپ کی عمیق نظر اور بصیرت مخالفوں کے تمام حیلوں کا نظاره کر رهی تھیں اور دشمن کے کردار کو مختلف میدانوں میں پوشیده اور ظاهری طورپر دیکھ رهی تھیں اسی لئے امامت کے مقام و مرتبہ کو سماج کے سیاسی میدان میں خوب اچھے انداز میں بیان کررھی تھیں، پہلے تو کوتاه فکروں اور ساده لوح انسانوں کے سامنے مسئلہ امامت بڑے روشن طریقہ سے پیش کیا۔ اس کے آغاز میں اهل بیت علیھم السلام کی امامت کو "اتحاد اور تفرقہ سے امان کا سبب۔[15] " بتایا، اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو " ائمہ معصومین علیھم السلام میں سب سے بزرگ" هونے کا لقب دیا ۔[16] خلافت کے غاصبوں کے سامنے اپنے سیاسی کلام میں فرمایا: " قرآن میں حکمِ خدا اور قرآن کریم کی تفسیر و تاویل کے متعلق پیغمبراسلام صلی الله علیہ و آله وسلم کی سنت اور تاکید کے برخلاف امامت کو غصب کرکے دوسروں کے سپرد کردیا هے"
۴ ۔ اقتصادی اخلاقیات:
غربت و مالداری،سخاوت و ایثار، امتحانات کے مختلف مراحل و حالات اور مشترک زندگی کے نشیب و فراز میں ھوا کرتے هیں، جو کبھی هماری زندگی کے آغاز سے ساتھ هوا کرتے هیں اور کبھی کچھ مختلف حالات میں همارے ایمان کے پَرکھنے اور مذهبی عقائد کے امتحان کا سبب هوا کرتے هیں، عورت و مرد کے "اقتصادی اخلاقیات" زندگی کے سنگلاخ میدانوں میں کامیابی کے بہترین اسلحے هوتے ھیں، اس طرح سے کہ "مالداری اور فقر و ناداری" ان کی رفتار و گفتار میں کسی طرح کا تغیّر اور اس میں رَخنہ نہیں ڈال سکتے هیں اور انہیں مختلف میدان میں پاک و پاکیزه اور صاف و شفاف کا مالک بنائے رکھتے هیں ۔
شادی کی رات میں نیا اور بہترین لباس ۔۔ مالداری کے زمانے ۔۔ میں سائل کو دینا اور فقر و تنگدستی کے زمانے میں حاجتمندوں، غریبوں اور محتاجوں کے لئے ایثار کرنا، فاطمہ زهرا سلام الله علیھا کے اقتصادی اخلاقیات و اوصاف کے بحر بیکراں کا ایک چھوٹا سا نمونہ هے، جو همارے لئے نعمتوں کے وفور و سرشار هونے یا تنگدستی و فقر کے زمانے کے لئے بہترین نمونہ اور آئیڈیل بنا رهے گا ۔
رسول اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم ایک دن جناب فاطمہ زهرا سلام الله علیھا کے گھر میں تشریف لے گئے اور فرمایا: میری بیٹی! تم کیسی هو؟ اور کس طرح زندگی بسر کررهی هو ؟۔انہوں نے جواب دیا: بھوک نے مجھے نڈھال کردیا هے، هر وقت کمزوری میں اضافہ هوتا جارها هے، همارے پاس غذا نہیں هے کہ جس سے بھوک کو برطرف کروں
5- خلوص
هر ملاوٹ سے عمل کو صاف ستھرا بنائے رکھنے کا نام هے۔اور هر طرح کی آلودگی سے اپنے کاموں کو پاک و پاکیزه بنانا هے، اس طرح کہ ان کاموں میں غیر خدا کے لئے کوئی نصیب نہ هو۔[20] اور دنیا و آخرت میں اس عمل سے اجر و ثواب کو بھی طلب نہ کیا جائے۔
دوسرے الفاظ میں یہ بیان کیا جائے کہ انسان اپنے عمل میں دوسروں کی تعریف و مدح کی امید نہ رکھتا هو اور عمل کو خواهشاتِ نفسانی سے صاف و شفاف رکھے اسی کا نام اخلاص هے ۔[22] یعنی جو انسان ظاهر و باطن اور تنہائی و مجمع میں ایک جیسا دکھائی دیتا هے کہ گویا کوئی بھی همارے اعمال کو دیکھنے والا نہیں تھا اور صرف ذات خدائے متعال ھے جو همارے اعمال، رفتار و کردار پر شاهد هے اور بس ۔
خلوص کبھی کردار و عمل میں دیکھا جاتا هے ۔۔ جس کا مطلب اچھے عمل کو انجام دینا، برے سے دوری اور حق کو اپنانا اور باطل سے دوری هے، اور کبھی نیت میں میں اس کی تفسیر هوتی هے ۔۔ جس کا مطلب یہ هوا کہ جهنم کے خوف اور بہشتت کی لالچ سے بلند هوکر مرضی و خوشنودی پروردگار کی راه میں قدم اٹھایا جائے ۔ اور دین میں اخلاص اس وقت جانا جاتا هے کہ جب آئین و ایمان میں تمام احکام و قوانین کے متعلق ھر طرح کے تعصب اور جانب داری سے بیزاری هو ۔[23]
جناب فاطمہ زهرا سلام الله علیھا اخلاص کے اوج و بلندی پر تھیں، ان کی یہ ممتاز حیثیت اصولِ عقائد پر ایمان، دینی اعتقادات سے متعلق دیرینہ لگاؤ اور فراوان عبادت تھی ۔
ایک دن رسول خدا (صلی الله علیه وآله وسلم) نے حضرت فاطمہ زهرا (سلام الله علیها) کی طرف رخ کرکے فرمایا: "اے بیٹی! ابھی میرے پاس جبرئیل موجود ھیں اور پروردگار کی طرف سے پیغام لے کر آئے ھیں کہ تم جو کچھ درخواست کرو گی وہ پوری ھوگی، بتاؤ تم کو کیا چاھئے ؟"۔
جناب فاطمه (سلام الله علیها) نے جواب دیا: "شَغَلَنی عَنْ مَسأَلته لَذَّة خِدْمَته، لا حاجَة لی غیر النَّظر اِلی وَجْهِهِ الْکَریم، حضرت حق تعالیٰ کی خدمت میں جو لذّت مجھے حاصل ھوتی ھے وہ مجھ کو ھر خواھش سے باز رکھتی ھے، اور مجھے اس کے علاوہ کوئی حاجت نہیں ھے کہ میں ھمیشہ جمالِ پروردگار کی ناظر رھوں ۔
اس طرح کی روشن و شفاف بصیرت باعث بنی کہ مختصر نورانی کلام میں خلوص کے بارے میں معرفت کی بلندی کو بیان کریں:" مَنْ أَصْعَدَ إِلَى اللَّهِ خَالِصَ عِبَادَتِهِ أَهْبَطَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَيْهِ أَفْضَلَ مَصْلَحَتِهِ، جو انسان اپنی خالصانہ عبادت کو بارگاہِ خداوندی میں بھیجے گا، پروردگار بھی اپنی بہترین مصلحت کو اس کی طرف نازل کرے گا۔
آپ ایک جگہ عبادت کے متعلّق فرماتی هیں: " الله نے روزه کو دل کی دنیا میں اخلاص کے ثابت قدم و برقرار رکھنے کا ذریعہ قرار دیا هے"۔حسین بن روح کہتے هیں: فاطمہ زهرا سلام الله علیھا میں دو بڑی اهم خصوصیت موجود تھیں ۔پہلی خصوصیت یہ کہ وه رسول خدا صلی الله علیہ وآله وسلم کی وارث تھیں، دوسری خصوصیت یہ هے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآله وسلم کی نسلِ پاک ان کی ذرّیت طاھرہ سے هے۔ خداوند عالم نے انھیں ان اوصاف کا حامل صرف اس لئے قرار دیا هے کیونکہ "فاطمہ زهرا سلام الله علیھا کی نیت میں خلوص تھا "۔