دلوں پر خدا کے ربوبی تصرف سے مشکل کشائی
ہم قافلہ عشق سے پیچھے رہ جانے والے حیرت زدہ افراد، راہ خدا کے تمام مسافر وسالک، وہ چالیس دن کی عبادت (چلّہ) کرنے والے، وہ تمام علما، علمی نکات کے دلدادہ افراد، مفکرین، اسلام کی پہچان رکھنے والی شخصیات، وہ تمام روشن فکر، صاحبان قلم، فلسفی، دنیا سے آشنا، ماہرین عمرانیات، معاشرتی علوم سے وابستہ افراد، انسانوں کی حقیقت سے با خبر شخصیات اور دیگر تمام افراد کس طرح اس مشکل اور معمّا کو حل اور اس مسئلہ کا تجزیہ وتحلیل کرتے ہیں کہ وہ زہرآلود معاشرہ کہ جس میں شہنشاہی حکومت نے تمام شعبہ ہائے حیات کو روحانی موذی امراض اور زہر سے لبریز کردیا تھا یہاں تک کہ اس کے بازار، دکانیں ، سڑکیں ، تفریحی مقامات، سینما، مطبوعات، ذرائع ابلاغ، وزارتیں وسرکاری محکمے، پارلیمنٹ، عدالتیں ، ابتدائی اور پرائمری اسکولوں سے لے کر یونیورسٹی تک تمام تعلیمی وتربیتی ادارے اور پورے ملک کی معاشرتی فضا سب زہر قاتل سے لبالب تھی کہ ان میں سے ہر ایک عنصر ہمارے جوانوں کو آلودۂ زہر اور مسموم کرنے اور اخلاقی برائیوں کی طرف انہیں کھینچنے کیلئے بہت فعال تھا۔
ایسے ماحول و معاشرے میں ہمارے نونہانوں اور نوجوانوں نے جوانی اور رشد کی دنیا میں قدم رکھا تھا کہ تمام اعداد وشمار، قرائن اور معاشرتی فضا کے مطابق ان کے وجود کو زہرآلودہ اخلاقی برائیوں اور خراب عقائد سے پر ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح کہ اگر اخلاق کا کوئی معلّم یا مربی یا تہذیب نفس کا استاد اگر تن تنہا ان میں سے کسی ایک امر کی اصلاح کیلئے دسیوں سال بھی کوشش کرتا تو تب بھی کامیاب نہیں ہوتا۔
یہ کس طرح ممکن تھا کہ سالہا سال سے زہرآلودہ فضا میں پرورش پانے والے معاشرے سے چند ہی سالوں میں ایک بہترین معاشر اور انقلاب وجود میں آجاتا ہے کہ جس کے دامن سے معرفت خدا سے سرشار نوجوانوں، ملاقات خدا کے سراپا عاشقوں اور اسلام کیلئے جانثاری اور شہادت کا جذبہ رکھنے والے نوجوانوں کی تربیت کی جاتی ہے کہ جس کے مقابلے میں اسی معاشرے میں رہنے والے اسی سالہ بوڑھے اور سفید ریش سالک الی اﷲ بھی ان جلوؤں کی پہنچ سے بہت دور تھے۔
یہ سب اس صورت میں ہے کہ ہم ان تمام قرائن وشواہد اور اعداد وشمار کو معمولی اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے فرض کریں کہ جو برائیوں کو پھیلا رہے تھے (جبکہ صورتحال اس کے برعکس تھی اور شاہی حکومت عمداً یہ سب کام انجام دے رہی تھی) چنانچہ ان تمام قرائن وشواہد، پہلے سے تیار شدہ منصوبہ بندی اور ایسی صورتحال میں خدا کے دست غیبی، اس کی اپنے بندوں کی دستگیری اور ان کی تربیت سے متعلق اس کی رحمتوں کے علاوہ بھی اس مشکل اور معمیّ کی کوئی اور تجزیہ وتحلیل کی جاسکتی ہے؟
صحیفہ امام، ج ۱۶، ص ۱۵۰