حضرت علی علیہ السلام شہیدِ عدالت
عدالت ایک ایسی صفت کو کہا جاتا ہے جو گناہوں کے ترک کرنے کا سبب بنتی ہے اور دین اسلام نے عدل و انصاف اور عدالت پر بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ فقہی اعتبار سے کسی شخص کی عدالت یا دو عادل اشخاص کی گواہی یا اس شحص کے ساتھ زیادہ معاشرت یا معاشرے کے دینداروں کا اس کی عدالت پر یقین رکھنے کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے۔ عدل، ظلم کا متضاد ہے جس کے معنی دو چیزوں کے درمیان مساوات برقرار کرنے اور ہر چیز کو اس کے اصل مقام اور منصب پر رکھنے کو کہا جاتا ہے۔ وہ انسان جو اپنے تمام کاموں میں عدالت کی رعایت کرے اسے عادل کہا جاتا ہے۔ لہذا عدالت وہ عظیم حقیقت ہے جسے نافذ کرنے کے لئے خداوندمتعال نے انبیاء اور مرسلین بھیجے اور ان کی بعثت کا ایک مقصد معاشرے اور سماج میں عدالت کا نفاذ قرار دیا۔
مولائے کائنات علی بن ابی طالبؑ کی عدالت اتنی مشہور ہوئی کہ اس نے دین و مذہب کی حدوں سے گزر کر ہمہ گیر شکل اختیار کر لی اگر آج کی موجودہ دنیا کا جائزہ لیا جائے تو دنیا کا ہر مفکر اور دانشور، خواہ وہ کسی بھی ملت و مذہب سے تعلق رکھتا ہو، آپ کی عدالت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو اپنے لئے ایک بہت بڑا امتیاز اور شرف سمجھتا ہے۔ جیسا کہ جارج جرداق نامی ایک مسیحی دانشور نے آپ کی عدالت کے موضوع پر ۵ جلدوں پر مشتمل " صوت العدالۃ الانسانیہ" نام کی کتاب بھی تالیف کردی، جو دنیا کی مختلف مشہور زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکی ہے۔ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں جارج جرداق کا یہ جملہ بھی بہت مشہور ہے جسے متعدد مقامات پر نقل کیا گیا ہے: اے علی! اگر میں یہ کہوں کہ آپ، عیسیٰ سے برتر ہیں تو اسے میرا دین نہیں مانتا! اور اگر کہوں کہ وہ آپ سے برتر ہیں تو یہ میرا ضمیر نہیں مانتا ہے! میں یہ نہیں کہتا کہ آپ خدا ہیں۔۔! پھر اے علی آپ خود ہی ہمیں بتا دیں کہ آپ کون ہیں؟! امیر الموٴمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جس سے اسلامی اور غیر اسلامی مفکرین اور دانشمند متاثر ہوئے۔ جس کسی نے اس عظیم الشان ہستی کے کردار، گفتار اور اذکار میں غور کیا تو وہ دریائے حیرت میں ڈوب گیا۔ یہاں تک کہ غیر مسلم محققین اور دانشوروں نے جب امام المتقین علیہ السلام کے اوصاف کو دیکھا تو انہیں پوری دنیا میں بے مثال اور بے نظیر پانے کے بعد انہوں نے حیرانگی کا اظہار کیا۔
بانی انقلاب امام خمینی رحمہ اللہ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں: امت مسلمہ کے امام کی شخصیت ایسی ہے کہ اسلام میں، اسلام سے پہلے اور اس کے بعد کسی کو بھی ان کی مانند تلاش کرنا ناممکن ہے۔ وہ ایسی شخصیت ہیں جن کے اندر متضاد صفات پائی جاتی ہیں، اور یہ علی علیہ السلام کا ہی وجود ہے جو متضاد صفات کا مالک ہے، جو شخص جنگجو ہوتا ہے وہ اہل عبادت نہیں ہوتا، جو طاقت کے بل بوتے پر زندگی بسر کرتا ہے وہ زاہد و پرہیزگار نہیں ہو سکتا، جو ہمیشہ تلوار چلاتا ہو اور منحرف افراد کو سیدھے راستے پر لگاتا ہو وہ لوگوں پر مہربان نہیں ہو سکتا لیکن حضرت امیر المومنین علیہ السلام اس ذات کا نام ہے جس میں متضاد صفات پائی جاتی تھیں۔ وہ دنوں کو روزے رکھتے تھے اور راتوں کو عبادت میں مصروف رہتے تھے اور تاریخ نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ ایک رات میں ہزار رکعت نماز بھی پڑھا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود کھانے میں جَو کی روٹی اور نمک کا استعمال کرتے تھے اور اسی جو کی روٹی اور نمک کے باوجود ان کی جسمانی طاقت اتنی تھی کہ انہوں نے باب خیبر کو اکھاڑ کر دور پھینک دیا جس کے بارے میں تاریخ نے لکھا ہے کہ چالیس افراد مل کر بھی اسے ہلا بھی نہیں سکتے تھے۔ ان کا تلوار چلانے کا انداز یہ تھا کہ جس کے اوپر وہ تلوار چلتی تھی اس کے دو ٹکڑے کر دیتی تھی۔ میرے خیال کے مطابق اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس واحد ہستی کے علاوہ کسی دوسرے کی تربیت نہ کی ہوتی تو ان کے لئے یہی کافی ہوتا۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد پچیس برس تک حضرت علی علیہ السلام نے خانہ نشینی میں زندگی بسر کی اور اس دوران بھی اسلام کے مسائل کا حقیقی مرجع آپؑ ہی قرار پائے اور جب ۳۵ھ میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کا منصب حضرت علی کے سامنے پیش کیا تو آپؑ نے پہلے انکار کیا لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھ گیا تو آپ نے اس شرط سے منصب قبول کیا کہ میں بالکل قران اور سنتِ پیغمبرؐ کے مطابق حکومت کروں گا۔ مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور آپؑ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی لیکن زمانہ آپؑ کی خالص مذہبی حکومت کو برداشت نہ کرسکا خصوصاً بنی امیہ سمیت بہت سے افراد آپؑ کی عدالت برداشت نہ کر سکے اور آپؑ کی عدالت کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھنے لگے اور اس کے نتیجہ میں آپؑ کو شہید کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔
حضرت علی علیہ السلام کو ۱۹ رمضان سن ۴۰ھ کو صبح کے وقت ابن ملجم مرادی نامی ایک شقی انسان نے مسجد کوفہ میں حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا اور جب تلوار آپؑ کے سرِ اقدس پر لگی تو آپؑ نے فزتُ و رب الکعبۃ کی آواز بلند کر کے اپنی کامیابی کا اعلان کیا۔ جب آپؑ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپؑ کے سامنے لایا گیا اور آپؑ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپؑ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں بیٹوں یعنی امام حسن علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمھارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا اگر میں صحت یاب ہوگیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم لوگوں نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے اور اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا ہے۔ اس ضربت کے نتیجہ میں دو روز تک حضرت علی علیہ السلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور ۲۱ رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت واقع ہوئی۔