امام غایت درجہ معاف کرنے والے تھے
امام خمینی (رح) کے اندر عفو و درگذر بہت زیادہ تھا۔ ہم لوگ ساڑھے 9/ بجے رات کو حضرت امام علی امیر المومنین (ع) کے حرم سے زیارت کرکے واپس ہورہے تھے۔ سڑک بھی کوئی نظر نہیں آرہا تھا اور موسم سرد تھا۔ اچانک عبدالعزیز نامی مالدار شخص گاڑی پر سوار سر سمت ہو کر امام کے پاس سے اتنی تیزی کے ساتھ گذرا کہ اگر ہم امام کو دھکا نہ دیتے تو امام پر گاڑی چڑھ جاتی۔ اس کے بعد میں نے اس کی گاڑی پر زور سے ہاتھ مارا اور میں نے کہا: ملعون والدین۔ وہ ایک غنڈا اور مالدار عرب تھا۔ امام کی گلی کی نکڑ پر اس نے اپنی گاڑی کھڑی کردی اور ایک غنڈا کی طرح میری پاس آیا کہ میں نے اس کی گاڑی کے شیشہ پر ہاتھ کیوں مارا ہے؟
خلاصہ ہم لوگ آپس میں بھڑگئے اور لوگوں کی بھیڑ لگ گئی اور لوگوں نے ہم دونوں کو الگ کردیا۔ آقا نے کہا: آقا فرقانی اسے چھوڑ دو۔ میں نے کہا: مجھے اپنی پرواہ نہیں ہے وہ آپ کو گاڑی سے کچلنا چاہ رہا تھا۔ امام نے کہا: اب چھوڑدو۔ پولیس آئی۔ میں نے کہا کہ اس کو پکڑ کر رکھیں، میں نے آقا کو گھر پہونچایا اور دوبارہ واپس آیا۔ آقا قرہی بھی تھے۔ میں نے کہا: ہم لوگ کیا کریں؟ اسے بغدا کے جیل میں بھیجوادیں؟ انہوں نے کہا: نہیں امام ناراض ہوجائیں گے۔ سڑک پر آکر پولیس سے کہا: اگر یہ شاہ کی طرف سے امام کو کچلنے کے لئے مامور نہیں تھا تو کم سے کم اتنا ضرور ہے کہ اس نے شراب پی ہے لہذا اس کی سزا ملنی چاہیئے۔ ان لوگوں نے امام کو گھر سے باہر آنے کا اصرار کیا کہ آپ آئیں اور یہ آپ کے قدموں پر گر کر معافی مانگے۔ ہم لوگوں ںے کہا: سید گھر کے اندر جاچکے ہیں۔ پولیس نے کہا: ہمارا فریضہ کیا ہے؟ آقا شور و غل سن کر بولے: یہ کیسا شور ہے؟ کیوں لوگوں کو پریشان کررہے ہو؟ اس کے بعد مجھ سے کہا: جاؤ اسے آزاد کرادو تا کہ اپںے گھر چلا جائے۔
حجت الاسلام و المسلمین فرقانی