مؤمن کی سب سے اہم ذمہ داری
ایک مؤمن شخص کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ تمام حقیقتوں کی حفاظت کرتے ہوئے تمام انسانوں کو خدا کی جانب دعوت دے اور یہ اہم ذمہ داری صرف پاک نیت اور صاف دل کے ذریعہ انجام نہیں پائی بلکہ قرآن مجید اس سلسلہ میں واضح حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اے رسول خداؐ میری امت سے کہہ دو کہ میری اور میرے پیروکاروں کی روش یہ ہے کہ ہم تمام مخلوقات کو مکمل بینائی اور بصیرت کے ساتھ دعوت دیں۔ (یوسف/۱۰۸) اس آیت کے مطابق ہمارا فریضہ ہے کہ ہم بصیرت اور مکمل آگہی کے ساتھ عمل کریں اور اسلامی معاشرہ کے مسائل کے بارے میں علم و تعلیم اور تحقیق میں قدم رکھیں۔ اسلامی روایات میں بھی بعض دانشوروں اور محققین کو اپنے زمانے کے عالم کے عنوان سے پکارا گیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے اس بارے میں فرمایا ہے: جو شخص اپنے زمانہ کے بارے میں معلومات کا ذخیرہ رکھتا ہو وہ تمام قسم کے شبہات کے حملوں سے محفوظ رہتا ہے (یعنی اس کے پاس ہر طرح کے شبہہ کا جواب ہوتا ہے) ( بحارالانوار، ج۷۵، ص۲۶۹) اس روایت کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک محقق اور عالم کو مکمل بصیرت اور آگہی کا حامل ہونا چاہئے۔ البتہ علم و آگہی اور بصیرت آسانی سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ انہیں حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ تلاش و کوشش اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ تحقیق اور ریسرچ نہ صرف دنیوی سعادت اور دنیوی کامیابوں کی چابی ہے بلکہ اخروی کمال بھی صرف اسی کے سایہ میں حاصل ہوتا ہے اس مطلب کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ خداوندمتعال نے دین کو انتخاب کرنے کا راستہ بھی صرف تحقیق کو قرار دیا ہے اور وہ دینی عقائد کو صرف تحقیق، فکر اور غور کے ذریعہ ہی قابل قبول قرار دیتا ہے اور اس سلسلہ میں تقلید کو تسلیم نہیں کرتا اس کے علاوہ دین اسلام میں اس شخص کا عمل زیادہ مقبول اور خدا کی خوشنودی کا سبب بنتا ہے جس کا عمل، فکر و غور اور تحقیق پر مبنی ہو جیسا کہ بہت سی آیات و روایات میں اس بارے میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے لہذا ایک حدیث میں ہمیں ملتا ہے کہ جو شخص دین میں غور و فکر و مہارت سے کام نہیں لیتا خداوندمتعال اس کے عمل سے خوشنود نہیں ہوتا۔
اسلامی معاشرہ میں تحقیق کا فریضہ صرف کسی خاص طبقہ یا گروہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق یہ ایک ایسا فریضہ ہے جسے تمام انسانوں کے کاندھوں پر رکھا گیا ہے اور ہر شخص اپنی توان اور ذرائع کے مطابق اسے انجام دینے کی کوشش کرے یہ مطلب واضح طور روایات میں بھی موجود ہے جیسا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اپنی عمر بابرکت میں اس موضوع کی جانب کئی مرتبہ اشارہ کیا ہے اور انہوں نے امت مسلمہ کو بھی اس کی جانب تشویق دلائی ہے۔
حضرت امام خمینی (رہ) نے بھی تحقیق و تعلیم کے بارے میں بہت زیادہ تاکید ہے لہذا فرماتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مقدمات اس چیز کا سبب بنیں کہ تم اپنے اصلی اور بنیادی مقصد یعنی علوم اسلامی کے بارے میں تحقیقات سے دور ہو جاؤ۔
تمہیں کوشش کرنا چاہئے کہ ہر آئے دن تمہاری تحقیقات، نئی ایجادات، جدید افکار اور جدید مباحث میں اضافہ ہو
امام خمینی (رہ) ایک مقام پر حوزہ علمیہ میں تعلیم اور تحقیق کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ میں سنتی فقہ اور اجتہاد کا معتقد ہوں اور اس کی خلاف ورزی جائز نہیں سمجھتا ہوں۔
اسی طرح امام خمینی (رہ) دینی تعلیم میں علماء کی ایک اہم ذمہ داری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دینی اداروں اور علماء کو تحقیق و فکر کے سایہ میں معاشرہ کی آئندہ ضرورتوں کو مد نظر رکھنا چاہئے اور انہیں ہمیشہ رونما ہونے واقعات کے بارے میں پہلے سے ہی تمام مناسب ذرائع فراہم کرنا چاہئے
اسی طرح امام خمینی (رہ) علم اور عمل کے درمیان دو طرفہ رابطہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان دونوں میں دوطرفہ رابطہ پایا جاتا ہے۔ امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں خود شناسی خدا شناسی کی بنیاد ہے اور اخلاقی برائیوں سے دوری اختیار کرنا تہذیب نفوس اور خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لئے لازمی شرط ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ عمل کے بغیر علم و معرفت انسان کو حقیقت مطلق تک نہیں پہنچا سکتے۔ امام (رہ) کے نزدیک حقیقی علم تک پہچنے کی لازمی شرط یہ ہے کہ انسان احکام شریعت کی صحیح معنوں میں رعائت کرے لہذا اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: یہ جان لو کہ خدائی علوم تک پہنچنے کا کوئی راستہ و طریقہ نہیں ہے یعنی انسان خدائی علوم تک صرف اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے جب وہ احکام شریعت پر عمل پیرا ہو جب تک انسان شریعت کے آداب سے اپنے آپ کو لبریز نہ کرے تو اخلاق حسنہ اس کے اندر جگہ نہیں بنا سکتے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ خدائی نور معرفت اس کے دل میں جلوہ نما ہو اور باطنی علوم نیز اسرار شریعت اس کے لئے عیاں ہو سکیں۔