ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے مقاصد
کونسل کی تشکیل:
۱۳۶۱ ھ،ش میں ثقافتی انقلاب کے اراکین اور اعلی تعلیم و ثقافت کے وزارتی کابینہ کے درمیان کچھ وجوہات کی بنا پر ذمہ داریوں میں ٹکراؤ پیش آیا جس کے نتیجہ میں وقت کے وزیر تعلیم نے حکومت کے سامنے اپنی رائے پیش کی جسے حکومت نے عملی جامہ پہنانے کے لئے پارلیمنٹ میں بھیجا۔ حقیقت میں اگر ثقافتی انقلاب کی عالیہ کونسل کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس کی تأسیس ۱۹ آذر ۱۳۶۳ھ،ش میں ہوئی۔ امام خمینی (رہ) نے اس دن اپنے ایک پیغام میں ثقافتی انقلاب کی عالیہ کونسل کی تأسیس کا حکم دیا اس پیغام کا ایک حصہ یوں ہے: مغربی ثقافتی یلغار سے نکلنے اور اس کی جگہ اسلامی، قومی اور ثقافتی انقلاب کو تمام پہلوؤں میں بروئے کار لانے کے لئے بہت زیادہ تلاش و کوشش کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہمیں کئی سال زحمت کرنا پڑے گی اور ہمیں مکمل طور پر مغربی ثقافت کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس مقام پر ملک میں انقلابی فضا ایجاد کرنے اور اسے تقویت پہنچانے میں انقلابی ثقافت کے اراکین کی زحمتوں کا شکریہ ادا کرنا لازمی سمجھتا ہوں اس وجہ سے میں ثقافتی انقلاب کے اراکین کے علاوہ کچھ مزید افراد کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں جو حسب ذیل ہیں: جناب سید علی خامنہ ای، جناب اردبیلی، جناب رفسنجانی، جناب مھدوی کنی، جناب کاظم اکرمی جو وزیر تعلیم و پرورش تھے، جناب رضا داوری، نصراللہ پور جوادی اور محمد رضا ہاشمی۔
امام خمینی (رہ) نے جب ثقافتی انقلاب کی عالیہ کونسل کی تشکیل کا حکم دیا تو اس وقت یہ کونسل اپنے سات اراکین پر مشتمل تھی جو حسب ذیل ہیں: علی شریعتمداری، محمد جواد باہنر، محمد مھدی ربانی املشی، حسن حبیبی، عبدالکریم سروش، شمس آل احمد، جلال الدین فارسی۔ یونیورسٹیز میں تعلیم کے لئے اساتید کا انتخاب اور ان کی تربیت، طلاب کا انتخاب اور یونیورسٹیز میں اسلامی ماحول پیدا کرنا نیز یونیورسٹیز کا تعلیمی نظام بدلنا بھی عالیہ کونسل کی ذمہ داریوں میں شمار ہوتا ہے۔ البتہ عبدالکریم سروش کا عقیدہ ہے کہ یونیورسٹیز کے لئے اساتید کے انتخاب میں ثقافتی انقلاب کے اراکین صرف ایک ناظر ک حیثیت سے تھے اور بہت سے مقامات پر اساتید کے اخراج میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوتا تھا لیکن بعض تنقیدیوں نے ان کے دعوی کو قبول نہیں کیا اور ان کا عقیدہ ہے کہ یہ کام انقلابی ثقافت کی جانب سے تیار کئے گئے آئین نامہ کی بنا پر انجام پاتا تھا اور کسی دوسرے کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے۔ ۱۳۶۲ھ،ش میں ماہ شہریور میں امام خمینی (رہ) کے حکم کے مطابق عالیہ کونسل کے اراکین میں تبدیلی لائی گئی اور کچھ اور اراکین کا اضافہ کیا گیا جو سابقہ اراکین سمیت حسب ذیل ہیں: سید محمد خاتمی، محمد رضا مھدوی کنی، ایرج فاضل، غلام حسین رحیمی شعرباف، محمد علی نجفی، صادق واعظ زادہ، محمد رحمتی، حسن حبیبی، محمد جواد باہنر، احمد احمدی، محمد مھدی ربانی املشی، شمس آل احمد، عبدالکریم سروش، علی شریعتمداری اور جلال الدین فارسی۔
امام خمینی (رہ) نے ۱۹ آذر ۱۳۶۳ ھ،ش میں ثقافتی انقلاب کے اراکین میں ترمیم کی اور اس کے بعد سے اس کا نام ثقافتی انقلاب کی عالیہ کونسل رکھا گیا۔ ( سایت جامع امام )
کونسل کی ذمہ داریاں:
ثقافتی انقلاب کی عالیہ کونسل کی منجملہ اہم ذمہ داریوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے سیاست، قوانین اور نظارت۔ سیاست کے میدان میں اگر دیکھا جائے تو ثقافتی مختلف پہلوؤں میں عالیہ کونسل کی مختلف ذمہ داریاں ہیں منجملہ: نشریات، تعلیم، یونیورسٹیز کی معیاری تعلیم، دوسرے ممالک سے علمی، تحقیقی اور ثقافتی تعلقات برقرار کرنا، یونیورسٹیز اور حوزات کے درمیان آپسی ہم آہنگی، معنوی اور دینی سرگرمیاں، ثقافتی یلغار کا مقابلہ اور سیاست وغیرہ۔ اسی طرح علمی اور تعلیمی قوانین بنانا بھی عالیہ کونسل ہی کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ایران کے ثقافتی تعلقات، ثقافتی اور تعلیمی کیفیت پر نظارت بھی اسی عالیہ کونسل کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔
۱۔ معاشرہ میں اسلامی ثقافت کی ترویج اور ثقافتی انقلاب اور عمومی کلچر کو تقویت پہنچانا۔
۲۔ مادی افکار سے علمی و ثقافتی ماحول کو پاک و پاکیزہ بنانا نیز معاشرہ میں موجودہ مغربی یلغار اور مغربی ثقافت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔
۳۔ یونیورسٹیوں، اسکولوں، مدرسوں اور ثقافتی مراکز میں تبدیلی لانا اور ان میں اسلامی ثقافت کی ترویج کرنا، اسلام اور اسلامی تعلیمات کے لئے ماہر اساتید وغیرہ کی بہترین انداز میں تربیت کرنا جو ملکی آزادی کے خواہاں ہوں اور اسلامی عقیدہ رکھتے ہوں۔
۴۔ تعلیم کو رواج بخشنا اور علمی و ثقافتی آزادی کے لئے انسانی مفید تعلیم اور تجربوں سے مستفید ہونا نیز تعلیم کے ساتھ ساتھ فکر و سوچ کو بھی تقویت پہنچانا۔
۵۔ اسلامی اور قومی آثار کا تعارف کراتے ہوئے ان کی حفاظت میں کوشاں رہنا۔