اقلیت کے خلاف اقلیت کی جنگ
تحریر: میم نون خان
آج سوشیالوجی کے ایک اہم موضوع پر قلم اٹھانا چاہ رہا ہوں، جو ممکن ہے کہ آپکے عام تصور کو بدل دے، آپ نے اکثریت کا راگ الاپتے ہوئے بہت سارے افراد کو سنا ہوگا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ اقلیت ہی اکثریت پر غالب آتی ہے، اکثریت کی نہ تو کوئی رائے ہوتی ہے اور نہ ہی غلبہ پاتی ہے، جو کچھ ہوتا ہے اقلیت ہی کی طرف سے ہوتا ہے، ہدف پر ایمان رکھنے والی ایک ایسی اقلیت جو جان، مال، عزت و آبرو سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو، یہ اقلیت بہت جلد ایک شھر علاقے جماعت یا گروپ میں پورے زور، قوت، طاقت، جوش و جذبہ کے ساتھ اس طرح وارد ہوتے ہیں کہ خاموش اکثریت چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے یا ان کا ساتھ دیتی ہے یا خاموش رہتی ہے۔ اگر کوئی انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ معاشرے کی اکثریت کو کیسے بدلے تو پریشان مت ہو، اسکا کام یہ ہے کہ ایک مضبوط، محکم، متعہد، ہدف پر پختہ ایمان رکھنے اور جان لڑا دینے والی اقلیت آمادہ کرے، اکثریت خود بخود آپ کے ساتھ مل جائے گی اور یہ کبھی مت سمجھے کہ آپکو اکثریت کے خلاف لڑنا ہے بلکہ آپکے مقابل بھی ایک طاقتور اقلیت ہی ہے کہ اس کی شکست سے اکثریت خود بخود آپ کے ساتھ مل جائے گی۔ پس جب آپ سنیں کہ اکثریت کی یہ رائے ہے تو وہاں بھی دھوکہ مت کھائیں، وہاں بھی اقلیت ہی ہوتی ہے، باقی اکثریت تو ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلے کرتی ہے۔
اگر آپ ایک ادارہ چلانا چاہتے ہیں یا جماعت، گروہ، تحریک کو لیکر چلنا چاہتے ہیں، ملک میں تبدیلی کے خواہش مند ہیں تو آپکو اکثریت کو ساتھ ملانے کی ضرورت نہیں۔ آپ اگر ایک عزم و ارادے کے پہاڑ جیسی اقلیت کو تیار کر لیں تو اکثریت خود بخود آپکے ساتھ مل جائے گی، اب چونکہ ان صفات کا جوانوں میں پایا جانا زیادہ دیکھا گیا ہے، اسی لیے ہر مثبت یا منفی حرکت کا پہلا ٹارگٹ جوان ہی ہوتے ہیں، کیونکہ یہ جلدی قائل ہو جاتے ہیں اور اپنی پوری قوت کے ساتھ موقف کا ساتھ دیتے ہیں۔ پیامبر اسلام جب اپنا پیغام لیکر آئے تو ایسا نہیں تھا کہ عربوں کی اکثریت نے سوچ سمجھ کر اس پر ایمان لے آئے ہوں اور نہ ہی اکثریت ایسی تھی، جن کو پیامبر اسلام کے خلاف جانے کا شوق تھا بلکہ ایک اقلیت تھی، جو ایک طرف پیامبر اسلام کے ساتھ تھی، جو اپنی جان، مال، عزت و آبرو سب کچھ دین کے لیے پورے جوش و جذبے کے ساتھ قربان کرنے کا عہد کرکے میدان عمل میں اترے۔ دوسری طرف کفار مکہ کے ساتھ بھی ایک اقلیت تھی، جو اسی جوش و جذبہ کے ساتھ مکہ کے کفار کے ساتھ تھی، لیکن انہی میں سے جب خالد بن ولید اور عمرو ابن عاص جیسے افراد آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگے تو کفار مکہ کی پرجوش اقلیت ختم ہونے لگی، جبکہ عربوں کی اکثریت ہوا کے رخ کے مطابق حرکت کرنے والی تھی۔
پاکستان میں ایک زمانہ تھا، پورا ملک جہادی نظر آتا تھا، جبکہ آج پورا ملک سیکولر نظر آتا ہے، جبکہ نہ تو پہلے اکثریت جہادی تھی اور نہ ہی آج اکثریت سیکولر ہے بلکہ ایک اقلیت کا پہلے زور تھا تو اس نے اکثریت کے چہرے پر قبضہ کر رکھا تھا اور ایک اقلیت آج ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں تمام سیاسی مذہبی جماعتیں ایک ہدف پر اندھا دھند اعتماد کرنے والی اقلیت کے زور پر اپنا اپنا نظریہ قائم کیے ہوئے ہیں۔ انقلاب ایران، روس، فرانس ہو یا تازہ بہار عرب کی تحریکیں، ان سب کے اندر ایسا نہیں ہے کہ ان ملکوں کی اکثریت عوام وہ چاہتی تھی جو ہوا بلکہ ایک اقلیت تھی، جس نے پہلے والی اقلیت پر قبضہ کر لیا، جبکہ اکثریت نے ہمیشہ کے قانون کی طرح اس پرجوش، پر ہمت، طاقتور اقلیت کا ساتھ دیا کہ اگر پہلے والی اقلیت جیت جاتی تو یہی اکثریت خواستہ یا ناخواستہ طور پر ان کے ساتھ ہوتی۔
امام خمینی سے کسی نے انقلاب سے پہلے کہا کہ شاہ کے پاس اتنی بڑی بری، بحری، فضائی فوج، اسلحہ، ادارے سب کچھ ہے اور اکثر فاسد بھی ہیں تو امام خمینی نے جواب دیا کہ پریشان مت ہوں، جب انقلاب آئے گا تو یہ سب اسلام کی خدمت میں آجائیں گے اور یہی آج نظر آنے والے فاسد تبدیل ہو کر اسلام کے لیے کام کریں گے۔ تقسیم ہند ہو یا موجودہ دور میں ہندووں کے مسلمانوں کے بارے میں رویئے، ایسا نہیں ہے کہ ہندووں کی اکثریت وہ چاہتی تھی یا ہے جو نظر آ رہا ہے، بلکہ ایک ہندو اقلیت تھی اور ہے جس نے اپنے زور بازو سے اکثریت ہندووں کو اپنے نظریہ ہندوتوا کے مطابق چلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت بھی ایسا نہیں ہے کہ اکثریت مسلمانانِ ہند تقسیم چاہتے تھے، بلکہ ایک ہمت اور ہدف پر ایمان رکھنے والی اقلیت تھی، جنہوں نے کوشش کی اور اکثریت آہستہ آہستہ ان کے ساتھ مل گئی۔ پُرجوش، پُرزور اقلیت کی طاقت کی سادہ ترین اور ملموس مثال واٹس اپ گروپ ہیں، جہاں 257 کے گروپ میں اگر 10 سے 15 زورآور متعہد شور شرابہ ڈالنے والے افراد ہوں تو وہ پورے گروپ کو یرغمال بنا کر مثبت یا منفی رائے بنا سکتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ پورے گروپ کی یہی رائے ہے۔
ڈیموکریسی رائج کرنے والوں کو اچھی طرح پتہ ہے کہ اکثریت کی کوئی رائے نہیں ہوتی اور جب آپ کے پاس پیسہ، میڈیا، طاقت، اسلحہ سب کچھ ہوتا ہے تو اس اکثریت کو اپنے ساتھ ملانا کوئی مشکل کام نہیں، اس لیے اکثریت کے خلاف لڑنے کا بہترین ہتھیار بھی یہی اکثریت بصورت جمع ہے۔ پاکستان میں دوسروں کو کافر قرار دینے والی ایک زورآور اقلیت ہے، جس نے اہل سنت پر قبضہ کر رکھا ہے، ورنہ اکثریت اہل سنت کبھی ایسی نہیں ہے۔ اسی طرح شیعہ قوم میں غالی فکر کو عام کرنے والی بھی ایک اقلیت ہے، لیکن اس پرزور، طاقتور اور پرقدرت اقلیت نے اکثریت تشیع کے چہرہ پر قبضہ کر رکھا ہے جبکہ اکثریت کبھی بھی ایسے نہیں ہے۔ اب آخر میں اختتام آقای خامنہ ای کے اس تبصرہ پر کرتا ہوں، جو انہوں نے سعودی عرب کے اسلحے کی بڑی بڑی خرید پر کہا کہ پریشان مت ہوں، یہ ایک دن مجاہدین اسلام کے کام آئے گا، کیونکہ یہاں تو فقط ایک اقلیتی خاندان آل سعود کی حکمرانی ہے۔