حضرت امام حسن عسکری (ع) کی شہادت
رسولخدا (ص) کے جانشین اور شیعوں کے 11/ ویں امام حضرت امام حسن عسکری (ع) کی 8/ ربیع الاول سن 260 ھ ق کو شہر سامرا میں شہادت ہوگئی۔ یہ دن اور یہ تاریخ شہرت سامرا میں تمام انسانوں اور آپ کے چاہنے والوں اور شیدائیوں کے لئے بہت ہی غم انگیز اور درد و الم سے بھرا ہوا تھا۔ ہر طرف شور گریہ و ماتم اور عزاداری اور سوگواری تھی۔ کیونکہ عنفوان شباب میں حضرت امام حسن عسکری کی خبر شہادت کا عام ہونا تھا کہ بازاریں تعطیل ہوگئیں، ہر طرف شور و شین اور نوحہ و ماتم ہونے لگا۔ اب تک جو چاہنے والے حکومت کے خوف سے امام کی نسبت اپنی محبت اور عقیدت کو پوشیدہ رکھے ہوئے تھے ان سے برداشت نہ ہوسکا اور عنان صبر ہاتھ سے چھوٹ گئی اور روتے پیٹتے دوڑتے ہوئے امام کے گھر آئے۔
پرہیزگاروں کے 11/ویں امام اور پیشوا حضرت امام حسن عسکری سن 232 ھ ق کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی 10/ ویں امام، حضرت ہادی (ع) ہیں اور آپ کی والدہ گرامی ایک عابدہ، زاہدہ اور پارسا خاتون جناب حدیثہ ہیں کہ بعض نے انھیں سوسن کے نام سے یاد کیا ہے۔ حضرت امام حسن عسکری (ع) عباسی خلیفہ کے حکم سے سامرا میں جبرا قیام پذیر تھے اس لئے آپ کو "عسکری" کہا گیا ہے کیوں کہ یہ جگہ لشکر کے رہنے کی تھی۔ آپ کے مشہورترین القاب نقی، زکی اور کنیت ابو محمد ہے۔ آپ ابھی 22/ سال ہی کے ہوئے تھے کہ آپ کے والد گرامی کا انتقال ہوگیا۔ آپ کی مدت امامت 6/ سال ہے اور آپ کی عمر شریف 28/ سال اور سن 260 ھ ق کو شہید ہوگئے اور سامرا شہر میں اپنے ہی گھر میں اپنے والد کے پہلو میں دفن کردیئے گئے۔
اگرچہ امام حسن عسکری (ع) ناگوار حالات اور عباسی حکومت کی جانب سے سخت پابندیوں کی وجہ سے معاشرہ کی سطح پر اپنے علم و دانش کو عام نہ کرسکے لیکن اس کے باوجود اسی ناگفتہ بد حالات اور گھٹن کے دور میں ایسے ایسے شاگردوں کی تربیت کی۔ ہر شاگرد نے اپنی جگہ اسلامی معارف کی نشر و اشاعت اور دشمنوں کے شبہوں کا جواب دینے میں موثر کردار ادا کی ہے۔ شیعہ عظیم دانشور اور عالم دین جناب شیخ طوسی نے امام کے ان شاگردوں کی تعداد 100/ سے زیادہ بتائی ہے کہ ان شاگردوں کے درمیان نمایاں اور ممتاز نیز صف اول کے چہروں میں احمد اشعری قمی، عثمان بن سعید عمری، علی بن جعفر اور محمد بن حسن صفار ہیں۔ اللہ کے ہر نمائندہ اور رسولخدا (ص) کے ہر جانشیں نے اپنے اپنے دور میں اپنے زمانہ کے سخت ترین حالات میں بھی اپنے الہی فرائض پر عمل کیا اور خدا کی توحید و عدالت کی توسیع میں ہر ممکن کوشش کی اور دار فانی کو وداع کہہ دیا۔
حضرت امام خمینی (رح) ان ایام کو ایام الله کہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ان ایام کی برکتوں اور سعادتوں سے استفادہ کرنا چاہیئے۔ ان ایام میں ہدایت و سعادت اور شخص و معاشرہ کے لئے خیر و خوبی اور نیکی و بھلائی ہے لہذا ان کی قدردانی کرنی چاہیئے۔
حضرت امام حسن عسکری (ع) کی شہادت
رسولخدا (ص) کے جانشین اور شیعوں کے 11/ ویں امام حضرت امام حسن عسکری (ع) کی 8/ ربیع الاول سن 260 ھ ق کو شہر سامرا میں شہادت ہوگئی۔ یہ دن اور یہ تاریخ شہرت سامرا میں تمام انسانوں اور آپ کے چاہنے والوں اور شیدائیوں کے لئے بہت ہی غم انگیز اور درد و الم سے بھرا ہوا تھا۔ ہر طرف شور گریہ و ماتم اور عزاداری اور سوگواری تھی۔ کیونکہ عنفوان شباب میں حضرت امام حسن عسکری کی خبر شہادت کا عام ہونا تھا کہ بازاریں تعطیل ہوگئیں، ہر طرف شور و شین اور نوحہ و ماتم ہونے لگا۔ اب تک جو چاہنے والے حکومت کے خوف سے امام کی نسبت اپنی محبت اور عقیدت کو پوشیدہ رکھے ہوئے تھے ان سے برداشت نہ ہوسکا اور عنان صبر ہاتھ سے چھوٹ گئی اور روتے پیٹتے دوڑتے ہوئے امام کے گھر آئے۔
پرہیزگاروں کے 11/ویں امام اور پیشوا حضرت امام حسن عسکری سن 232 ھ ق کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی 10/ ویں امام، حضرت ہادی (ع) ہیں اور آپ کی والدہ گرامی ایک عابدہ، زاہدہ اور پارسا خاتون جناب حدیثہ ہیں کہ بعض نے انھیں سوسن کے نام سے یاد کیا ہے۔ حضرت امام حسن عسکری (ع) عباسی خلیفہ کے حکم سے سامرا میں جبرا قیام پذیر تھے اس لئے آپ کو "عسکری" کہا گیا ہے کیوں کہ یہ جگہ لشکر کے رہنے کی تھی۔ آپ کے مشہورترین القاب نقی، زکی اور کنیت ابو محمد ہے۔ آپ ابھی 22/ سال ہی کے ہوئے تھے کہ آپ کے والد گرامی کا انتقال ہوگیا۔ آپ کی مدت امامت 6/ سال ہے اور آپ کی عمر شریف 28/ سال اور سن 260 ھ ق کو شہید ہوگئے اور سامرا شہر میں اپنے ہی گھر میں اپنے والد کے پہلو میں دفن کردیئے گئے۔
اگرچہ امام حسن عسکری (ع) ناگوار حالات اور عباسی حکومت کی جانب سے سخت پابندیوں کی وجہ سے معاشرہ کی سطح پر اپنے علم و دانش کو عام نہ کرسکے لیکن اس کے باوجود اسی ناگفتہ بد حالات اور گھٹن کے دور میں ایسے ایسے شاگردوں کی تربیت کی۔ ہر شاگرد نے اپنی جگہ اسلامی معارف کی نشر و اشاعت اور دشمنوں کے شبہوں کا جواب دینے میں موثر کردار ادا کی ہے۔ شیعہ عظیم دانشور اور عالم دین جناب شیخ طوسی نے امام کے ان شاگردوں کی تعداد 100/ سے زیادہ بتائی ہے کہ ان شاگردوں کے درمیان نمایاں اور ممتاز نیز صف اول کے چہروں میں احمد اشعری قمی، عثمان بن سعید عمری، علی بن جعفر اور محمد بن حسن صفار ہیں۔ اللہ کے ہر نمائندہ اور رسولخدا (ص) کے ہر جانشیں نے اپنے اپنے دور میں اپنے زمانہ کے سخت ترین حالات میں بھی اپنے الہی فرائض پر عمل کیا اور خدا کی توحید و عدالت کی توسیع میں ہر ممکن کوشش کی اور دار فانی کو وداع کہہ دیا۔
حضرت امام خمینی (رح) ان ایام کو ایام الله کہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ان ایام کی برکتوں اور سعادتوں سے استفادہ کرنا چاہیئے۔ ان ایام میں ہدایت و سعادت اور شخص و معاشرہ کے لئے خیر و خوبی اور نیکی و بھلائی ہے لہذا ان کی قدردانی کرنی چاہیئے۔