امام حسین (ع) پر آج بھی ظلم ہو رہا ہے

امام حسین (ع) پر آج بھی ظلم ہو رہا ہے

واقعہ عاشورا کی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔ عاشورا ایک بہت بڑا واقعہ ہے جس میں انسان کی عقل اور عشق اپنی حقیقت پا لیتے ہیں امام حسین (ع) کا قیام عقلانیت سے سرشار تھا اور حق و باطل کا میدان جنگ تھا

 امام حسین (ع) پر آج بھی ظلم ہو رہا ہے

زیر نظر تحریر حضرت آیۃ اللہ فاضل لنکرانی کے بیانات سے ماخوذ ہے جس میں انہوں واقعہ عاشورا کی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔ عاشورا ایک بہت بڑا واقعہ ہے جس میں انسان کی عقل اور عشق اپنی حقیقت پا لیتے ہیں امام حسین (ع) کا قیام عقلانیت سے سرشار تھا اور حق و باطل کا میدان جنگ تھا لیکن موجودہ دور میں مجالس میں جذباتی پہلو عقلانی پہلو پر غالب آ گیا ہے کیونکہ اگر صرف عشق و محبت کے پہلو کو مد نظر رکھا جائے تو ہمیں اس واقعہ میں اطاعت کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ عشق و محبت انسان کے اوپر ذمہ داریاں عائد نہیں کرتے اگر انسان معنوی مراحل طے کرتے ہوئے عالی شان مراتب بھی طے کر لے تو یہ چیز دوسروں کے لئے قابل حصول نہیں ہے۔ لہذا جو افراد واقعہ عاشورا کو اس سانچے میں ڈالتے ہیں انہیں سینکڑوں سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی وجہ سے وہ مجبور ہو کر اس واقعہ میں سینکڑوں قسم کے خرافات و بدعتیں ایجاد کرتے ہیں اسی وجہ سے بعض یہ کہتے ہیں اب عقل و دین کو چھوڑ کر ہمیں اپنے عشق کی بنا پر عمل کرنا چاہئے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمارا عشق کس چیز کا حکم دیتا ہے آج اگر ہم واقعہ عاشورا کو دنیا کے سامنے متعارف کرانا چاہیں تو ہمیں عقلانی پہلو کو اجاگر کرنا ہوگا ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ اپنی شہادت سے لے کر اپنے شیر خوار کی شہادت تک امام حسین (ع) کا عمل مسلمہ عقلی مسائل پر مبنی تھا۔ ہمیں امام حسین (ع) کے قیام کو سمجھنے اور اس کا صحیح تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو کہ اس زمانہ میں بھی ہم امام حسین (ع) کی مظلومیت پر اضافہ کر رہے ہوں اور اپنے تجزیوں اور باتوں کے مطابق امام حسین (ع) اور واقعہ عاشورا پر ظلم کر رہے ہوں اس ضمن میں دینی بزرگوں اور علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر قسم کی بدعت کا مقابلہ کریں، ایسا مشہور کیا جاتا ہے کہ واقعہ عاشورا میں عقل عاجز ہے اور میدان میدانِ عقل نہیں ہے بلکہ ہمیں عشق و محبت، ابزار عشق اور آثار عشق کے سلسلہ میں گفتگو کرنا چاہئے لیکن حقیقت میں یہ بات مشہور کی گئی ہے اگرچہ اس کے بارے میں کافی بحث و گفتگو کی ضرورت ہے لیکن ہمیں عقلی کردار پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو عاشورا کے رموز میں سے ہے قرآن کریم میں بھی عقل کے سلسلہ میں بہت تاکید کی گئی ہے اور ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے قابل غور بات ہے کہ انسان دنیا میں آتے اور چلے جاتے ہیں لیکن اس عظیم نعمت یعنی عقل پر توجہ نہیں کرتے لہذا جو انسان اس عظیم نعمت سے غافل ہے حقیقت میں اس نے انسانی زندگی کو درک نہیں کیا اور وہ زندگی کے بنیادی مفہوم کو نہیں سمجھ پایا۔ اصول کافی میں توحید و عقائد کی گفتگو سے پہلے کتاب العقل کے عنوان سے گفتگو کی گئی ہے اور اس کتاب میں عقل کے بارے میں متعدد روایتیں پائی جاتی ہیں۔  امیر المومنین حضرت علی (ع) نے نہج البلاغہ کے کلمات قصار میں اجمالی طور پر ۲۵۸ مقامات پر لفظ عقل کا استعمال کیا ہے جن میں ہر ایک کے بارے میں گھنٹوں گفتگو کی جا سکتی ہے، افسوس کے ہم دین کے راستہ میں اس سے مستفید نہیں ہوتے روایات میں عقل سے مراد وہ قوت ہے جو اچھے اور برے، نیک و بد اور حق و باطل کے ادراک میں ہماری مددگار ثابت ہو۔ جب انسان پوچھتا ہے کہ کیا ہوا کہ واقعہ عاشورا رونما ہوا؟ تو اس سوال کا جواب اس چیز میں پوشیدہ ہے کہ اس زمانے کے لوگوں کی عقلوں پر پردے پڑے تھے اور وہ حق و باطل کی پہچان کرنے میں ناکام رہے۔ امام حسین (ع) نے فرمایا:  " لا یُکمَلُ العَقلُ اِلّا بِاتِّباعِ الحَق "  عقل صرف حق کی پیروی میں کامل ہوتی ہے یعنی وہ لوگ جو حق کی پیروی کرتے ہیں وہ عاقل ہیں اور وہ افراد جو اپنی جانوں کو ہتھیلیوں پر لئے میدانِ شہادت میں قدم رکھتے ہیں وہ انسانوں میں سب سے زیادہ عقلمند ہیں اس بنا پر امام حسین (ع) اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ عقلمند انسان تھے۔ ہمیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ امام حسین (ع) کو خدا کی محبت کربلا لائی لہذا اگر اس طرح کی بات کہی جائے تو ہمیں ان کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے دینی معاشرہ میں خدا کی اطاعت عقل انسانی کے کمال کا سبب ہے وہ شخص جو گھر بیٹھ جاتا ہے اور اسے پرواہ نہیں ہوتی کہ آج دین مٹ رہا ہے یا نہیں، اسلام پر وار ہو رہا ہے یا نہیں ایسا شخص بنیادی طور پر عاقل نہیں ہے بلکہ عاقل شخص وہ ہے جو میدان میں قدم رکھتا ہے، فریاد بلند کرتا ہے، دفاع کرتا ہے اور اگر ضرورت پڑے تو اپنی جان بھی دے دیتا ہے۔ موجودہ دور میں امام حسین (ع) کی عزاداری میں ذاکرین جن مطالب سے استفادہ کرتے ہیں ان میں جذباتی پہلو عقلانی پہلو پر غالب ہے۔ حضرت امام حسین (ع) نے حتی جناب علی اصغر کو بھی راہ خدا میں جو دیا تو وہ بھی عقلانیت کی بنا پر تھا نہ عشق و محبت کی بنا پر۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم بعض شعراء کے شعروں میں یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ واقعہ کربلا عقلانیت کے مدار سے نکل گیا لیکن ہماری نظر میں یہ چیز واقعہ عاشورا کے سلسلہ میں کی جانے والی تحریفات میں سب سے بڑی تحریف ہے، ہمیں لوگوں کو بتانا چاہئے کہ امام حسین (ع) کی تحریک عقل پر مبنی تھی انسان کی عقل ہی اسے خدا کی اطاعت کے لئے تیار کرتی ہے انسان کی عقل اسے میدانِ جنگ میں لے جاتی ہے اور شہید ہو جاتا ہے اور ہم لوگ جو قافلۂ شہداء سے پیچھے ہیں حقیقت میں ہم نے اپنی عقل کا صحیح  استعمال نہیں کیا ہے اور ہم ابھی اوج عقلانیت پر فائز نہیں ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنی عقلِ سلیم کو میدان میں لاتے تو بہت سے خرافات و بدعتوں اور انحرافات کا سدّ باب ہو جاتا۔

واقعہ کربلا کے جاوداں رہنے کی وجہ کیا ہے؟ یہ واقعہ کیوں فراموش نہیں ہو پاتا بلکہ ہر سال اس واقعہ کے بارے میں لوگوں کی توجہات مزید مرکوز ہو رہی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے عناصر میں ایک اہم عنصر مظلومیت ہے اور ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ امام حسین (ع) کی مظلومیت کس چیز میں ہے؟ کیا دوسرے معصومین علیھم السلام مظلوم نہیں تھے؟ کیا امام حضرت علی (ع) کی مظلومیت پر توجہ نہیں ہے؟ خود حضرت امیر المومنین علی (ع) نے فرمایا کہ بیابان کی ریت کے برابر مجھ پر ظلم کیا گیا دوسرے ائمہ علیھم السلام کے سلسلہ میں بھی اس طرح بیان ہوا ہے۔ لیکن امام حسین (ع) اور دوسرے ائمہ علیھم السلام کی مظلومیت میں کافی فرق ہے لہذا ہمیں اس پہلو پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ امام حسین (ع) کی نسبت ہر سال اور ہر زمانہ میں عشق و محبت میں اضافہ ہوتا ہے کیا یہی عشق و محبت ہمارے لئے کافی ہے؟ ہرگز نہیں، اس شمعِ ہدایت کی معرفت کے بغیر انسانی کامیابی ممکن نہیں ہے معرفت کے بغیر خلقت کا فلسفہ سمجھنا بھی مشکل ہے اگر ہم خلقت کا فلسفہ تلاش کریں تو وہ واقعہ عاشورا میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کتنا عزیز ہے، دین کتنا عزیز ہے، خدائی حکم کتنا محترم ہے، خدائی حدود کی اہمیت کتنی ہے کہ جس کی حفاظت کے لئے حجت خدا اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے، ظلم و ذلت برداشت کرنا کتنا برا ہے کہ اس کے سامنے حجت خدا یعنی امام حسین (ع) اور ان کے با وفا صحابی کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اس کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ ہر انسان کی انسانیت اس چیز میں پوشیدہ ہے کہ وہ ہر سال جب ماہ محرم آتا ہے تو وہ یہ دیکھ لے کہ کیا وہ امام حسین (ع) اور ان کے مقاصد کے قریب تر ہوا ہے یا نہیں اسے یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کے دل میں دینی روح نے کتنی مقدار میں نفوذ کیا ہے اور وہ دین کے کتنا قریب پہنچا ہے نماز سے اس کی محبت میں کتنا اضافہ ہوا ہے اور اسلام کے دفاع میں کتنی زیادہ توجہ کی ہے یہ سب کچھ اس راز الہی کا نتیجہ ہے جسے امام حسین (ع) نے ایک روایت میں بیان فرمایا ہے کہ خدا کی قسم اس نے دنیا میں جو چیز خلق کی ہے اسے ہماری اطاعت کا حکم دیا ہے لہذا حجت خدا کی اطاعت اس قسم کی تمام تحریکوں کا انجام ہے، دین کا دفاع، قرآن کا دفاع، خدائی احکام کا دفاع اور معاشرے میں خدائی احکامات کا جاری کرنا امام حسین (ع) کے ساتھ رابطہ کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ امام حسین (ع) کے زمانہ میں لوگ قرآن پڑھے تھے، ظلم کے بارے میں وہ باخبر تھے لیکن اس کے باوجود وہ امام حسین (ع) کے سامنے جنگ کے لئے تیار ہو گئے اور اتنا بڑا ظلم کر ڈالا اور انہوں نے فرزند رسولؐ کو شہید کر دیا اس ظلم سے بڑھ کر کوئی ظلم قابل تصور نہیں ہے لیکن اس طرح کا ظلم آج بھی پایا جاتا ہے آج اگر ہم واقعہ کربلا کو صحیح بیان نہ کریں اور صحیح معنی میں اس کا تجزیہ نہ کریں نیز اگر ہم اسے عشق و محبت کے پہلو پر مبنی قرار دیں اور عقل و عقلانیت کے مقابلے قرار دیں تو یہ خود ایک بہت بڑا ظلم ہے بنیادی طور پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ عاشورا کا سمجھنا انسان کے لئے واجبات میں سے ہے البتہ وہ انسان جو اسے تجزیہ و تحلیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ امام حسین (ع) نے ایک ایسی تحریک چلائی جس نے ہمارے اوپر ذمہ داریاں عائد کر دیں امام حسین (ع) کی تحریک ایک عقلانی تحریک تھی اگرچہ ہم امام حسین (ع) کی تحریک کو صرف عشق و محبت پر مبنی قرار دیتے ہیں یہ پہلو بھی اس میں موجود ہے لیکن اسے اگر  اسی پہلو سے دیکھا جائے تو ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہمیں امام حسین (ع) کے واقعہ کو اس طرح تجزیہ کرنا چاہئے کہ قیامت تک کے لئے ذمہ داریاں عائد ہوں اور جو چیز ہمارے لئے ذمہ داری کا باعث بنے اسے سمجھنا ضروری ہے فقہی نظر سے واقعہ عاشورا کو سمجھنا ہمارے لئے واجب ہے، امام حسین (ع) کی شہادت کیوں واقع ہوئی اسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خود موجودہ زمانہ میں بھی امام حسین (ع) پر مزید ظلم کریں پس اگر ہم واقعہ کربلا کو صحیح نہ سمجھیں اور خدانخواستہ اس کا غلط تجزیہ کریں تو ایسی صورت میں ہم بھی ان پر ظلم کرنے والوں میں شریک ہیں لہذا ہمیں امام حسین (ع) کی مظلومیت کو ادراک کرنا چاہئے اور خود امامؑ سے متوسل ہو کر آپؑ کی مظلومیت کو سمجھنا چاہئے تا کہ ہم اپنی گفتگو و اپنے تجزیہ میں ان پر ظلم کرنے والے نہ بنیں۔ امام حسین (ع) نے خود کو اسلام کی خاطر قربان کیا اور ان پر گریہ و زاری میں بھی بہت ثواب ہے اہل سنت کی بعض کتابوں میں کچھ ایسی روایتیں موجود ہیں جن سے یہ ثابت کیا جاتا ہے دنیا سے چلے جانے والے شخص پر گریہ و زاری نہیں کرنا چاہئے وہ اپنے خام خیال کے ذریعہ شیعوں سے ماتم و گریہ کو چھیننا چاہتے ہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے عقائد میں خوف خدا سے گریہ کرنے کے ساتھ ساتھ امام حسین (ع) پر گریہ و اشک بہانا بھی پایا جاتا ہے ان پر ایک قطرہ اشک بہانے سے انسان کے گناہ مٹ جاتے ہیں لہذا اس طرح کی روایتیں ہرگز صحیح نہیں ہیں۔ موجودہ دور میں وہابیت نے عزاداری امام حسین (ع) کو مٹانے اور اہل بیتؑ سے توسل سے دوری کے سلسلہ میں پوری کوشش کی ہے لیکن وہ جہالت کی وادی میں ہیں انہیں معلوم نہیں کہ یہ تحریک ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ خدا کا ارادہ یہ ہے کہ ہر سال عزاداری سید الشہداء کو نہایت شان و شوکت سے منایا جائے سینکڑوں کتابیں لکھی جاتی ہیں اور پوری دنیا میں بھیجی جاتی ہیں لیکن امام حسین (ع) کے ایک چہلم سے ان کی تمام سازشیں ناکام ہو جاتی ہیں اور ان کے تمام شبہات کے جوابات دے دئے جاتے ہیں، چھوٹے، بڑے، پیر و جوان، مرد وعورتیں سب مل کر امام حسین (ع) کے مرقد کی جانب حرکت کرتے ہیں اس کا راز کیا ہے؟ معلوم نہیں کوئی بھی عقل اسے انسانی اختیارات کے دائرہ میں تفسیر نہیں کر سکتی اس کا راز صرف خدائے متعال ہی جانتا ہے اور اسی کے ارادہ میں ہے موجودہ دور میں جو بیداریاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ان سب کا انجام امام حسین (ع) پر ہے المختصر یہ کہ امام حسین (ع) کی ہدایت کے بغیر ہدایت پانا ناممکن ہے جو جتنا زیادہ حسینی بنے گا اتنی ہی زیادہ ہدایت پائے گا اور ہر قیام و تحریک کا رابطہ امام حسین (ع) کے قیام اور ان کی تحریک سے وابسطہ ہے۔ دینی بزرگوں اور علماء کا فریضہ ہے کہ وہ ہر قسم کے انحراف اور بدعت کا مقابلہ کریں۔ یاد رکھو کہ بہترین عزاداری وہ ہے جس کا ائمہ اطہارؑ نے حکم دیا ہے اور عزاداری کا حقیقی چہرہ اسی وقت سامنے آئے گا جب ایک عزادار اور سوگوار واقعہ کربلا کے اصلی مقاصد کی جانب متوجہ ہو۔ ہمیں ان مجالس میں شرکت کرنا چاہئے جہاں ذاکرین اور خطباء اپنے کلام کو معتبر شکل میں بیان کریں۔ ائمہ اطہارؑ نے اگر عزاداری کی بقاء اور واقعہ کربلا و امام حسین(ع) اور ان کے اصحاب و اولاد پر گریہ کی تاکید کی ہے تو اس کی اصلی دلیل یہ ہے کہ اس مقدس قیام کے مقاصد باقی رہیں کیونکہ اسی صورت میں لوگ نجات کی کشتی سے متمسک ہو کر اپنی ہدایت کا ذریعہ فراہم کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔

منبع: hawzah.net       

 

 

ای میل کریں