حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی شخصیت پر سرسری نگاہ
ماہ ذی القعدہ کا آغاز حضرت امام کاظم اور امام رضا علیھما السلام کے لئے نہایت برکت اور مسرت سے ہوا حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت سن ۱۴۸ھ، ق اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی ولادت ۱۷۳ ھ،ق یعنی ۲۵ سالہ فاصلہ کے ساتھ ہوئی۔ امام صادق علیہ السلام نے بھی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی ولادت سے باخبر کیا تھا (مجلسی، بحارالانوار، ج۵۷، ص۲۲۸)
جس دن ( پہلی ذی القعدہ) حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی ولادت ہوئی تو وہ دن جناب نجمہ خاتون، امام رضا اور امام کاظم علیھما السلام کے لئے نہایت ہی مسرت و خوشی کا دن تھا کیونکہ ایک ایسی بیٹی دنیا میں آئی کہ جس نے دلوں کو جلا بخشی۔ انتظار کی گڑیاں ختم ہوئیں اور مدینہ منورہ میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی ولادت ہوئی۔
اسم گرامی
ائمہ اطھار علیھم السلام حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا اپنے مقام و منزلت کی خاطر بہت احترام کیا کرتے تھے اور جب وہ مطلع ہوتے کہ ان کے اصحاب میں سے کسی نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھا ہے تو اس کی نسبت مزید محبت کی تاکید کیا کرتے۔ اگر ائمہ علیھم السلام کی اولاد پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام ائمہ علیھم السلام نے اپنی بچیوں کے نام فاطمہ رکھے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے بھی اپنی ایک بیٹی کا نام فاطمہ رکھا اور ان کی والدہ گرامی اور زوجہ گرامی کا نام بھی فاطمہ تھا۔ حضرت موسی بن جعفر علیھما السلام نے حد اقل اپنی دو بیٹیوں کے نام فاطمہ رکھے۔
تربیت و پرورش
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا نے ایسے ماحول میں پرورش پائی جس میں ان کے والدین اور دوسری اولاد اخلاقی فضائل سے آراستہ تھے۔ مدینہ میں حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کے گھر جب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی ولادت ہوئی تو انہوں نے اپنی بیٹی کو آغوش میں لیا اور بیٹی کے کان میں اذان و اقامت کہنے کے بعد فاطمہ نام رکھا۔ جناب نجمہ ایک پرہیزگار خاتون تھیں کہ تقدیر و مصلحتِ الہی نے انہیں شمال افریقا سے امام کاظم علیہ السلام کے گھر لایا۔ انہوں نے بھی دوسروں کی طرح امام صادق علیہ السلام کی بشارت کو سن رکھا تھا کہ امام موسی بن جعفر علیھما السلام کے گھر میں فاطمہ نام کی ایک بیٹی کی ولادت ہوگی جس کی شفاعت کے نتیجہ میں ان کے چاہنے والے جنت میں جائیں گے۔ (مجلسی، بحار الانوار، ج۵۷، ص۲۲۸)
جناب فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا نے ایسے خاندان میں قدم رکھا جو اپنے زمانے میں علم، فضیلت اور پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھا انہوں نے اپنے والدین اور معصوم بھائی کے ہاں تربیت و پرورش پائی اور انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث و سنت پر بھی عبور حاصل تھا آپ کی عمر چھ سال تھی جب ہارون رشید نے آپ کے بابا کو عراق جلا وطن کر کے قیدی بنا ڈالا اور وہ (حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا) اپنے دلسوز بھائی امام رضا علیہ السلام کے گھر چلیں گئیں تا کہ انہیں اپنے بابا کی کمی محسوس نہ ہو۔سن ۱۸۳ ھ،ق میں ان کی عمر ۱۰ سال کی تھی جب انہوں نے بابا کی شہادت کی خبر سنی۔ ان تمام سالوں میں صرف فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا ہی تھیں جو اپنے بھائی امام رضا علیہ السلام کی پشت پناہ تھیں۔ سن۱۹۳ھ،ق میں ہارون کی جانشینی کے سلسلہ میں جس جنگ کا آغاز ہوا اس میں سب سے زیادہ نقصان مدینہ کو ہوا اور سخت سیاسی و اقتصادی دباؤ بھی امام رضا علیہ السلام پر ہی تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین کے عنوان سے قیام کریں۔
ھجرت
ہارون کی خلافت کے دور میں اہل بیت علیھم السلام کے پیروکاروں و شیعوں پر کافی دباؤ تھا اور امام کے مخصوص اصحاب تقیہ میں زندگی بسر کر رہے تھے اور ان کی چھوٹی چھوٹی حرکتوں کو مد نظر رکھا جاتا تھا اس کی مثال وہ لباس تھا جسے ہارون رشید نے علی بن یقطین کو دیا اور وہ لباس خلفاء سے مخصوص تھا علی بن یقطین نے وہ لباس موسی بن جعفر کو پیش کیا تو امام علیہ السلام نے اسے قبول نہیں کیا اور فرمایا: اس لباس کو اپنے پاس رکھو ایک دن وہ تمہارے کام آئے گا۔ کچھ عرصہ بعد علی بن یقطین کے ایک خدمتگذار نے ہارون کے پاس شکایت کی اور کہا:مخصوص لباس کو علی بن یقطین نے جناب موسی بن جعفر علیھما السلام کو ہدیہ کیا ہے۔ ہارون نے فوراً انہیں بلایا اور ان سے لباس کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا: میں نے اسے سنبھال کے رکھا ہے ہارون نے حکم دیا کہ اسے فوراً میرے پاس لے کر آؤ جب اس کی نگاہ اس لباس پر پڑی تو ہارون نے خدمت گزار سے کہا: اس کے بعد تمہاری بات میرے نزدیک معتبر نہیں ہے۔
امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد جب سن۱۹۸ ھ،ق میں مامون حکومت پر فائز ہوا تو امام کے گھریلو حالات کافی دشوار ہوگئے یہاں تک کہ امام رضا علیہ السلام نے اجباری طور پر مامون کی چاہت کو تسلیم کرتے ہوئے ظاہری ولیعھدی کو قبول فرمایا۔ جب امام رضا علیہ السلام کو سن ۲۰۰ ھ، ق میں ماہ شعبان میں مدینہ سے خراسان لے جایا جا رہا تھا تو انہوں نے اپنے خاندان کو بلا کر فرمایا: یہ ہمارا آخری دیدار ہے اور اس کے بعد میں اپنے جدّ کے حرم کی زیارت نہیں کر پاؤں گا۔ اور اس طریقہ سے فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا رنج و غم میں مبتلا ہو گئیں۔ ۲۰۱ھ،ق میں فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا اپنے بھائی کے دیدار کے اشتیاق میں جل رہی تھیں لہذا وہ ایک خراسانی قافلہ کے ساتھ اپنے بھائی کے دیدار کے لئے روانہ ہوگئیں اور جب قافلہ ساوہ کے نزدیک پہونچا تو وہاں کچھ حکومتی کارندوں اور اہل بیت علیھم السلام کے مخالفوں نے جناب فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے قافلہ پر حملہ کردیا اور اس واقعہ میں کچھ شہید بھی ہو گئے اسی اثناء میں جناب فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا غم و اندوہ کی وجہ سے بیمار و ناتوان ہوگئیں اور ارد گرد سے "قم" کے بارے میں معلوم کیا یونکہ کئی مرتبہ انہوں نے اپنے بابا سے سنا تھا کہ "قم" ہم اہل بیت کا حرم اور شیعوں کی پناہگاہ ہے اس کی سرزمین مقدس ہے ان کے اہل ہم میں سے ہیں اور ہم ان میں سے ہیں۔ تو جواب ملا کہ "قم" تک دس فرسخ فاصلہ ہے اس کے بعد جناب فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا: مجھے قم لے چلو۔
ساوہ میں جناب فاطمہ معصومیہ کی سکونت اور ان کی بیماری کی خبر قم پہونچی تو شہر کے بزرگ منجملہ امام رضا علیہ السلام کے صحابی جناب موسی بن خزرج اشعری وغیرہ نے انہیں قم مدعو کیا تو فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا نہایت احترام کے ساتھ موسی بن خزرج کے گھر تشریف لائیں اہل قم نے ان کا اچھے انداز میں استقبال کیا اور موسی بن خزرج کا گھر اہل بیت علیھم السلام کے چاہنے والوں کے لئے رفت و آمد کا مقام ٹھہرا اور جناب معصومہ سلام اللہ علیھا کی عیادت کے لئے کافی تعداد میں مرد و عورتیں تشریف لاتے اور ان سے کسب فیض کیا کرتے اور آخر کار وہاں ہی ان کی شہادت ہوئی۔
شرافتِ نسب
جناب معصومہ سلام اللہ علیھا کے فضائل میں ایک فضیلت یہ ہے کہ وہ امامت و رسالت سے متصل تھیں وہ ولی اللہ کی پھوپھی، ولی اللہ کی بیٹی ہیں اور یہ امر خود معنوی کمالات و فضائل کا سرچشمہ ہے اور انہوں نے امام موسی کاظم اور امام رضا علیھما السلام جیسی معصوم ہستیوں سے کسب فیض کیا اس بنا پر انہیں اہل بیت علیھم السلام کے فضائل کی جھلکیاں سمجھا جا سکتا ہے۔
اگرچہ مقام عصمت ایسا مقام ہے جو انبیاء عظام اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے مخصوص ہے لیکن ہرگز یہ راستہ دوسروں کے لئے بند نہیں ہے بلکہ بہت سے افراد ایسے ہیں جو اطاعت و اخلاص و بندگی کے نتیجہ میں تقوا و طہارت کی منزلوں پر فائز ہوئے جناب فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا خود ائمہ اطہار علیھم السلام کے مکتب کی پیروکار تھیں اور ہر خاص عام نے انہیں طہارت و پاکیزگی میں آیتِ تطہیر میں طہارت کا نمونہ قرار دیا ہے لہذا روایات کی بنا پر حضرت امام رضا علیہ السلام نے انہیں معصومہ کا لقب دیا اور فرمایا: "مَنْ زارَ الْمَعْصُومَهَ بِقُمْ کَمَنْ زارَنی" جس نے قم میں معصومہ کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی۔
کریمۂ اہل بہتؑ
مرحوم آیت اللہ العظمی سید شھاب الدین مرعشی نجفی کے بابا اپنے زمانے کے بزرگ فقہاء میں سے تھے اور انہیں حضرت فاطمہ صدیقہ طاھرہ کی قبر مطہر کا نشان معلوم کرنے کا بہت زیادہ شوق تھا اس سلسلہ میں انہوں نے ایک مجرّب ختم کا انتخاب کیا انہوں نے چالیس راتیں عمل جاری رکھا تا کہ کسی طریقہ سے انہیں حضرت زھراء سلام اللہ کی قبر مطھر کے بارے میں معلوم ہو پائے۔ چالیسویں رات ختم کے اختتام اور توسل کے بعد خواب میں انہوں نے دیکھا کہ امام باقر علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور امام علیہ السلام نے انہیں فرمایا: "عـَلَیْکَ بـِکَریمَةِ اَهـْلِ الْبَیْتِ علیهم السلام" کریمۂ اہل بیت علیھم السلام سے توسل کرو۔ انہوں نے سوچا کہ کریمۂ اہل بیت علیھم السلام سے شائد امام علیہ السلام کی مراد حضرت زھراء سلام اللہ علیھا ہیں لہذا عرض کیا میں آپ پر قربان ہو جاؤں میں نے یہ عمل حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی قبر معلوم کرنے کے بارے میں انجام دیا تا کہ اس کے نتیجہ میں ان کی زیارت کر سکوں امام علیہ السلام نے فرمایا: میری مراد قم میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی قبر مطہر ہے اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: مصلحت خداوندی کا تقاضا ہے کہ ان کی قبر مطہر کا نشان مخفی رہے لہذا اس نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر کو حضرت زھراء کی قبر کی تجلی گاہ قرار دیا ہے۔ مرحوم آیت اللہ مرعشی نے یہ خواب دیکھنے کے بعد یہ ارادہ کیا کہ وہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی زیارت کے غرض سے ایران تشریف لائیں لہذا انہوں نے نجف اشرف کو کریمۂ اہل بیت علیھم السلام کی زیارت کے لئے اپنے گھر والوں کے ہمراہ ترک کردیا۔
شفیعۂ محشر
اس میں کوئی شک نہیں کہ حق شفاعت اور اس عظیم الشان مقام پر فائز ہونے کے لئے لازمی لیاقت کی ضرورت ہے کیونکہ خداوندمتعال صرف ان افراد کی شفاعت قبول کرتا ہے جو اس کی جانب سے ماذون ہوں " یَوْمَئِذ لاتـَنْفَعُ الشـَّفاعَۀُ اِلاّ مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمنُ " (طہ/۱۰۹) روز قیامت صرف اسی کی شفاعت قابل قبول ہے جسے خداوند متعال نے اجازت دی ہو۔
روز قیامت شافع محشر قرار پانے والے افراد میں حضرت فافطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا بھی ہیں جن کے بارے میں روایات میں تاکید ہوئی ہے روایات میں ملتا ہے کہ حضرت زھراء سلام اللہ علیھا کے بعد وہ خاتون جو شفاعت کریں گے وہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا ہیں۔ اس بارے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: میری اولاد میں سے ایک خاتون قم میں رحلت کریں گے جو جناب موسی علیہ السلام کی بیٹی ہوں گی اور ان کی شفاعت سے سب شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔ جناب فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے زیارتنامہ میں بھی ذکر ہوا ہے کہ " اے فاطمہ معصومہ خداوندمتعال کے نزدیک میری شفاعت فرمانا۔ یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ روز قیامت ان کا مقام کتنا عظیم الشان ہے۔
علم و دانش
حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی ایک فضیلت اسلامی معارف و علوم کے بارے میں ان کی آگہی ہے ایک دن مدینہ کے کچھ شیعہ امام کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ وہ اپنے سوالوں کے جواب ان سے حاصل کرسکیں لیکن جب وہاں پہونچے تو معلوم ہوا کہ امام سفر پر ہیں انہوں نے مجبور ہو کر اپنے سوال لکھے اور امام کاظم علیہ السلام کے اہل خانہ کے حوالے کردئے جب ان افراد نے واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا نے ان کے جوابات لکھ کر دے دئے وہ نہایت ہی مسرت کی حالت میں اپنے وطن لوٹ گئے راستہ میں ان کی ملاقات امام کاظم علیہ السلام سے ہوئی اور انہوں نے اپنی داستان بیان کی امام کاظم علیہ السلام نے لکھے ہوئے جوابات پر نظر دوڑائی تو انہوں نے حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی جانب سے تحریر شدہ جوابات کو صحیح پایا اس کے بعد امام علیہ السلام نے تین مرتبہ فرمایا: فداھا ابوھا۔ تمہارے والد تم پر قربان۔
قابل ذکر ہے کہ جب امام کاظم علیہ السلام کو گرفتار کر کے جلا وطن کیا گیا اس وقت حضرت معصومہ سلام کا بچپنا تھا اور یہ واقعہ بھی ان کے بچپنے میں ہی رونما ہوا ہے لہذا اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علم و دانش میں جناب معصومہ سلام اللہ علیھا کا مقام کس قدر بلند ہے۔ جناب معصومہ سلام اللہ علیھا کا شمار محدثوں و راویوں میں سے ہوتا ہے اور ان سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں۔
منبع: hawzah.net