امام حسن علیہ السلام کی سخاوت
امام حسن علیہ السلام کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار تمام اموال اور اپنی تمام پونجی خدا کے راستہ میں دیدی اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا_ آدھا راہ خدا میں دیدیا اور آدھا اپنے پاس رکھا۔
ایک دن آپ نے خانہ خدا میں ایک شخص کو خدا سے گفتگو کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا خداوندا: مجھے دس ہزار درہم دیدے_ امام _اسی وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص کو دس ہزار درہم بھیج دیئے۔
ایک دن آپ کی ایک کنیز نے ایک خوبصورت گلدستہ آپ کو ہدیہ کیا تو آپ(ع) نے اس کے بدلے اس کنیز کو آزاد کردیا_ جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ خدا نے ہماری ایسی ہی تربیت کی ہے پھر اس کے بعد آپ(ع) نے آیت پڑھی: "و اذاحُيّیتم بتحيّة فحَيّوا باحسن منہا" جب تم کو کوئی ہدیہ دے تو اس سے بہتر اس کا جواب دو۔
ایک دوسرے واقعہ میں ملتا ہے کہ ایک شخص شام سے آیا ہوا تھا اور معاویہ کے اکسانے پر اس نے امام (ع) کو برا بھلا کہا امام (ع) نے سکوت اختیار کیا ، پھر آپ نے اس کو مسکرا کر نہایت شیرین انداز میں سلام کیا اور کہا: "اے ضعیف انسان میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تو اشتباہ میں پڑگیا ہے، اگر تم مجھ سے میری رضامندی کے طلبگار ہو یا کوئی چیز چاہیے تو میں تم کو دونگا اور ضرورت کے وقت تمہاری راہنمائی کروں گا، اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو میں اس قرض کو ادا کروں گا، اگر تم بھوکے ہو تومیں تم کو سیر کردونگا . اور اگر، میرے پاس آؤگے تو زیادہ آرام محسوس کروگے۔
وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض کی: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں،خدا بہتر جانتا ہے کہ و ہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے_ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین شخص تھے لیکن اب آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
مروان بن حکم، جو آپ کا سخت دشمن تھا، آپ (ع) کی رحلت کے بعد اس نے آپ کی تشیع جنازہ میں شرکت کی امام حسین علیہ السلام نے پوچھا، میرے بھائی کی حیات میں تم سے جو ہوسکتا تھا وہ تم نے کیا لیکن اب تم ان کی تشییع جنازہ میں شریک ہو کر رورہے ہو؟ مروان نے جواب دیا: میں نے جو کچھ کیا اس شخص کے ساتھ کیا جس کی بردباری پہاڑسے زیادہ تھی۔