انجیل میں بعثت رسول اکرامؐ کی تصدیق
اسلامی روایات اور تاریخی مطالعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی بعض خصوصیات اور علامتوں کے ساتھ الہی ادیان میں ولادتِ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پہلے ہی مذکور تھی اور بہت سے اہل کتاب اور بعض مشرکین عرب اس کے بارے میں پہلے سے ہی آشنائی رکھتے تھے، قرآنی صراحت کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کا ذکر توریت و انجیل میں ہوا ہے اور حضرت عیسیؑ نے بھی جناب موسیؑ پر نازل ہونے والی کتاب توریت کی تصدیق کرتے ہوئے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے سلسلہ میں بشارت دی تھی۔ نیز مذکورہ کتابوں میں رسول اکرمؐ اور آپؐ کے اصحاب کی بعض خصوصیات کی جانب بھی اشارہ ہوا ہے۔
بعثت رسولؐ یا رسول اسلامؐ کا مقام رسالت پر فائز ہونا تاریخ اسلام کے اہم ترین نکات میں سے ہے اور نزول قرآن کا آغاز بھی اسی زمانہ سے ہوا ہے۔ لفظِ بعثت کے لغوی معنی بھیجنے کے ہیں اور اصطلاح میں خداوندمتعال کی جانب سے کسی انسان کو دوسروں کی ہدایت کے لئے بھیجنے کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ قرآن میں بھی ذکر ہوا ہے کہ اہل کتاب کے بڑے بڑے عالم و دانشور پیغمبر اسلامؐ کو اپنے قریبی افراد کی مانند پہچانتے تھے۔ تاریخ کے اوراق الٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے افراد رسول اسلامؐ کی ولادت اور آپؐ کی بعثت کے منتظر تھے نیز ان میں بعض افراد پیغمبر اسلامؐ کے دیدار کی امید لگائے ہوئے آپؐ کی محل سکونت، مقام ہجرت حتی آپؐ کی رفت و آمد کے مقامات کی جانب آپؐ کی ولادت سے پہلے ہی ہجرت کر چکے تھے کہ ان میں سے " بحیرائے راہب" کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
اس بنا پر بعثت رسول اسلامؐ انسانی ہدایت کے لئے ایک عظیم الشان واقعہ تھا اور اس امر کی عظمت کی وجہ سے اس با عظمت امر کے پیش نظر آپؐ کی تربیت و پرورش کو خداونمتعال کی جانب سے اپنے ذمہ لینا لازمی تھا اور تا کہ وہ آپؐ کو آنے والی مشکلات و سختیوں کے لئے تیار کر پائے۔ لہذا خدائی تربیت و پرورش کے نتیجہ میں بعثت سے پہلے ہی آپؐ نے اپنی زندگی پاک و پاکیزگی اور معنویت سے لبریزی میں بسر کی۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: خداوندمتعال نے ایک عظیم الشان فرشتہ کو آپؐ کے بچپنے سے ہی آپؐ کے ہمراہ قرار دیا وہ فرشتہ دن و رات آپؐ کے ساتھ رہتا تھا اور وہ آپؐ کو عظیم الشان اقدار اور پسندیدہ و شائستہ اخلاق کی جانب ہدایت کرتا تھا۔ پیغمبر اسلامؐ روحانی پاکیزگی کی بنا پر اس زمانے کے سماج و معاشرہ بالخصوص شہر مکہ میں جہالت اور فساد میں بسر کرنے والے افراد سے کافی رنج و غم محسوس کرتے تھے۔ رسول اسلامؐ خلوت میں عبادت کی غرض سے کچھ عرصہ کوہ حرا کا رخ کیا کرتے تھے جو مکہ کے شمال مشرق میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رسول اسلامؐ سے پہلے بھی بعض یکتاپرست یہ کام انجام دیتے تھے جیسا کہ عبدالمطلب آپؐ کے دادا کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے وہ اس رسم کے بانی تھے وہ ماہ مبارک رمضان میں عبادت کی غرض سے پہاڑی کا رخ کرتے تھے۔
اس خلوت گاہ میں آپؐ کی زندگی کے دوسرے مراحل کی طرح حضرت علیؑ آپؐ کا ساتھ دیا کرتے اور بعض اوقات وہ آپؐ کے کھانے پینے کا انتظام بھی کرتے اور آپؐ عبادت کے خاتمہ پر اپنے گھر کا رخ کرنے سے پہلے مکہ تشریف لے جاتے اور خانہ کعبہ کا طواف بجا لاتے تھے۔ یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آپؐ نے چالیسویں سال میں قدم رکھا اور خداوندمتعال نے آپؐ کے قلب مبارک کو پاک و پاکیزہ اور مطیع و خاضع پایا تو اس نے آپؐ کو نبوت پر مبعوث فرمایا۔ اکثر علمائے اہل تشیع کے مطابق آپؐ کی بعثت تعمیر کعبہ کے پانچ سال بعد ماہ رجب کی ستائیسویں تاریخ کو واقع ہوئی اور اس وقت آپؐ کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔ پیغمبر اسلامؐ اپنی رسم کے مطابق کچھ دنوں سے غار حرا میں عبادت کی غرض سے تشریف فرما تھے کہ ماہ رجب کی ستائیسویں تاریخ کو جبرائیلؑ آپؐ پر نازل ہوئے اور انہوں نے آپؐ کا بازوئے مبارک پکڑ کر ہلایا اور کہا: پڑھو اے محمد! آپؐ نے فرمایا: کیا پڑھوں؟ تو جبرائیلؑ نے سورہؐ علق کی ابتدائی آیات کی تلاوت کا کہا جنہیں خدا نے نازل فرمایا تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اقرا باسم ربّک الذی خلق خلقَ الانسانَ من علق اقرا وَ ربّک الاکرم الذی علّم بالقلمِ علّم الانسان ما لم یعلم " اس خدا کے نام سے پڑھو جس نے پیدا کیا ہے، اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے، پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے، اور اس نے انسان کو وہ سب کچھ بتا دیا ہے جو اسے معلوم نہیں تھا "۔
سب سے پہلی وحی کے نزول اور بعثت کے وقت بہت سے عظیم الشان واقعات رونما ہوئے جن میں سے شیطان کی رونے کی آواز کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: میں نے پہلی وحی کے وقت شیطان کے رونے کی آواز سنی تو میں نے رسول اسلامؐ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ یہ رونے کی آواز کیا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: یہ شیطان ہے جو اطاعت سے مایوس و ناامید ہو گیا ہے لہذا اس طرح سے رو رہا ہے اور اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: اے علی جو میں سنتا ہوں وہ تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں وہ تم بھی دیکھتے ہو لیکن فرق یہ ہے کہ تم مقام نبوت پر فائز نہیں ہو بلکہ میرے وزیر اور مددگار ہو اور ہر گز نیکی کے راستے سے جدا نہیں ہو گے۔
آپؐ کی بعثت کے بعد جبرائیل پانی لے کر نازل ہوئے اور انہوں نے آپؐ کو وضو کرنے کا طریقہ بتاتے ہو رکوع و سجود کا طریقہ بھی سکھایا نیز دوسرے احکام بھی آہستہ آہستہ پیغمبرؐ پر نازل ہوئے آپؐ نے وہ احکام سب سے پہلے اسلام لانے والے مسلمانوں کو سکھائے اور وہ بھی ان پر عمل پیرا ہوتے تھے مثال کے طور پر نماز کے سلسلہ میں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت علیؑ اور حضرت خدیجہ(س) ان سب سے پہلے نماز گزاروں میں سے ہیں جو آپؐ کی اقتدا میں نماز ادا کیا کرتے تھے تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ وہ نماز ظہر خانہ کعبہ کے قریب ادا کیا کرتے تھے اور بعض اوقات اس فریضہ کو دوسری جگہوں پر ادا کیا کرتے تا کہ اہل قریش متوجہ نہ ہوں۔
بعثت رسول اسلامؐ کی تاریخ کے بارے میں اہل شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اہل شیعہ کے علماء اور دانشوروں کے درمیان مشہور یہ ہے کہ آپؐ کی بعثت سن چالیس عام الفیل ماہ رجب کی ستائیسویں تاریخ کو واقع ہوئی اور اہل سنت کے علماء کے درمیان مشہور یہ ہے کہ یہ واقعہ اسی سال ماہ رمضان المبارک میں رونما ہوا کہ جس کے دن و رات میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ بعض نے سترہ رمضان، بعض نے اٹھارہ رمضان اور بعض نے چوبیس رمضان کا ذکر کیا ہے۔
منبع: Howzah.net