اگر چہ آقا مرعشی نجفی کے بیت میں بھی بعض روضہ خوان اس مسئلہ کو چھیڑتے تھے لیکن ان کا رویہ تند نہیں تھا لیکن آقا شریعتمداری کے بیت میں ان کی منطقی روش کی وجہ سے ان مسائل میں علنی اور کھلم کھلا مخالفت نہیں ہوتی اور انہوں نے اس مسئلہ کو اپنے بیت میں چھیڑنے کی اجازت نہیں دی اور حوزہ کے قابل ذکر اساتذہ جیسے آقا مکارم اور آقا نوری ہمدانی بھی اس کتاب شہید جاوید کے مخالف ہونے کے باوجود کھلم کھلا اور بے محابہ نہیں بولے بلکہ خصوصی محفلوں میں بیان کرتے تھے کیونکہ ان لوگوں نے سازش کو سمجھ لیا تھا اور اس مخالفت کا مقصد جان گئے تھے کہ اس کا صرف اور صرف مقصد علماء اور روحانیوں کے درمیان تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنا ہے۔
خود میں بھی اس کتاب کے بعض مطالب سے موافق نہ ہونے کے باوجود ایسے موقع پر اس کتاب کے نشر ہونے کو مناسب نہیں سمجھ رہاتھا کہ میں نے ایک دن اس مسئلہ کو نجف آباد میں آقا صالحی کے سامنے رکھا اور آدھی رات تک اس مسئلہ پر بحث کی۔ میں نے اس سے کہا: بالفرض کہ آپ کی کتاب کے تمام مطالب حق ہوں پھر بھی ایسے نازک موقع پر جب علماء کے درمیان اتحاد و یکجہتی کی شدید ضرورت ہے ان مطالب کا منظر عام پر آنا تفرقہ انگیز ہوگا اور یہ درست نہیں ہے۔ میں نے آقا منتظری اور آقا مشکینی سے بھی اس مسئلہ میں بحث کی ہے اور یہی تنقید ان لوگوں نے بھی کی۔ البتہ خود وہ لوگ بھی کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد سمجھ گئے کہ حکومت کے اس کتاب اور اس کی موقعیت سے اپنا کام بنالیا ہے۔ اسی وجہ سے یہ لوگ دوسرے ایڈیشن میں اپنی تقریظ کے چھاپنے سے مانع ہوئے۔ البتہ ہماری تنقید کے مقابلہ میں اپنا بچاو اس طرح کیا کہ ہم نے سو فیصد کتاب کے مطالب کی تائید نہیں کی ہے بلکہ ہم نے اس کتاب کی اپنی نوعیت کی ایک تحقیقی اور مدلل کتاب کے عنوان سے حوصلہ افزائی اور قدردانی کی ہے۔
علماء، روحانیوں اور روضہ خوانوں کی طرف سے اس کتاب کے بارے میں بیان کرنا معاشرہ میں انتشار کا سبب بنا ہوا ہے تا کہ حوزہ کے اکابر علماء اور افاضل کی گرفتاری پر حوزہ کے بزرگان اعتراض نہ کریں اور رد عمل نہ دکھائیں ۔