کس کے سامنے گناہ کا اعتراف کریں؟
گناہ کا اقرار در حقیقت ایک طرح کی پشیمانی اور ندامت کا اظہار ہے جسے اسلام توبہ کی صورت میں بیان کرتا ہے،اور امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث کی روشنی میں ندامت خود ایک توبہ ہے اور ممکن ہے انسان اقرار کے ذریعہ اپنی ندامت کو برملا کرے اور اپنی بات کو اس آدمی سے بیان کرنا چاہے کہ جو اسے ملامت نہ کرے بلکہ اسے اس کے مقصد تک پہونچنے میں مدد کرے۔
اسلام نے انسان کو یہ اجازت نہیں دی ہے کہ وہ دوسرے شخص کے سامنے اپنے ان گناہوں(صغیرہ اور کبیرہ) کو بیان کرے اور اپنے اسرار کو فاش کرے جو اس سے سرزد ہوئے ہیں چونکہ:انسان کی عزت و وقار اتنی عظیم و گرانقدر چیز ہے کہ اسے کسی قیمت پر دوسروں کی نگاہوں میں سبک نہیں بنانا چاہیئے اور انسان کو چاہیئے کہ وہ صرف اللہ تعالٰی کی بارگاہ توبہ کرے اور مغفرت طلب کرے۔
انسان جب اپنے معبود و خالق کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہے تو اسے اللہ ذلیل نہیں کرتا بلکہ اسے عزت دیتا ہے لیکن غیر خدا اگر وہ راز دار بھی ہو تب بھی گئی ہوئی عزت کو نہیں لوٹا سکتا۔
اسلام کے نکتہ نگاہ اور توحیدی عقیدہ کی رو سے اس عالم میں مؤثر حقیقی صرف اللہ تعالٰی کی ذات ہے اور غیر خدا اس کی اجازت و اذن کے بغیر کچھ نہیں کرسکتا لہذا دینی منابع میں کسی خاص شخص اور شخصیت کو گناہوں کی بخش دینے کے اعزاز سے نوازا نہیں گیا ہے۔البتہ کچھ ذوات ایسی ہیں جنہیں شفاعت کا حق دیا گیا ہے لیکن بخشش صرف ذات خداوندمتعال سے مخصوص ہے۔
اس بارے میں ان چند نکتوں کی طرف توجہ بہت ضروری ہے:
۱۔فی حد ذاتہ،کسی انسان کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار کرنا گناہ تو نہیں ہے لیکن اگر انسان کی عزت و آبرو کے جانے کا خوف ہو،مثال کے طور پر ایک شخص کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہے اور اسے اپنے گناہ پر پشیمانی اور ندامت کا احساس ہے اور وہ اس وقت دوسروں کے سامنے اس گناہ کا اعتراف کررہا ہے۔
۲۔دینی تربیتی نکتہ نظر سے حق دو طرح کے ہوتے ہیں:
الف) حق اللہ:گناہ حق اللہ کی پامالی اور ضیاع کا نام ہے اگر ان میں بندوں کی دخالت نہ ہو
ب)حقوق الناس:لیکن اگر وہ گناہ ایسا ہے جس میں لوگوں اور عباد اللہ کے حقوق پامال ہوئے ہوں تو ان کی معافی کے لئے صاحق حق کی رضا شرط ہے۔
۳۔اللہ تعالٰی کسی بھی طرح اپنے بندے کو اس کے حال پر چھوڑنا نہیں چاہتا بلکہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس کے رابطہ میں رہے اور اس نتیجہ پر پہونچ جائے کہ تمام چیزیں اسی کی طرف سے ہیں۔
۴۔دوسروں کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار میں کچھ مثبت و منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں:
دوسروں کے سامنے اعتراف کرنے کے مثبت اثرات یہ ہیں کہ دوسروں کو راضی کرنے پر وادار کیا جاسکتا ہے البتہ شرط یہ ہے کہ وہ افراد رازدار ہوں اور وہ اس کی مدد کرسکتے ہوں۔
منفی آثار یہ ہیں کہ کہ ممکن ہے معترف کے لئے آئندہ میں درد سر ایجاد ہوجائےنیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ بہترین رازدار خدا کی ذات ہے لہذا آپ اپنے دل کی بات اس کے سامنے بیان کیجئے کہ جو ستار العیوب ہے اور اپنے بندوں کے حال کو بہتر طور پر جانتا ہے۔
۵۔بندوں کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار کرنا کلیسا کی دیرینہ روایت ہے کہ جو اسلام کی نظر میں صحیح نہیں ہے۔
البتہ گناہ کا اقرار در حقیقت ایک طرح کی پشیمانی اور ندامت کا اظہار ہے جسے اسلام توبہ کی صورت میں بیان کرتا ہے،اور امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث کی روشنی میں ندامت خود ایک توبہ ہے اور ممکن ہے انسان اقرار کے ذریعہ اپنی ندامت کو برملا کرے اور اپنی بات کو اس آدمی سے بیان کرنا چاہے کہ جو اسے ملامت نہ کرے بلکہ اسے اس کے مقصد تک پہونچنے میں مدد کرے۔