میری نظر میں امام (رح) کا حوزہ علمیہ میں مقدس، قدامت پرست علماء سے مقابلہ، آپ (رح) کو در پیش دیگر سیاسی اور جنگی مسائل سے زیادہ سخت تھا۔ اگر قدامت پسندوں کا وہ قلعہ (جو کہ دین اور سیاست کو دو مختلف راہیں، سمجھنے کی فکر پر استوار تھا) امام (رح) نہ توڑتے اور ان کی اس غلط فکر کی اصلاح نہ کرتے تو امام کبھی بھی اپنے اہداف کی جانب دوسرا قدم (جو کہ پورے عالم کے طاغوتوں کے ساتھ جنگ تھی) نہ اٹھا سکتے، کیونکہ وہ ایک بہت بڑا کام تھا۔
لہذا امام خمینی (رح) یہ جانتے تھے کہ انہیں اپنے کام کی ابتدا، حوزہ علمیه ہی سے کرنا ہوگی اور صاحبان فکر و اندیشہ کی فکری اصلاح کرنے کے بعد وہ حوزہ علمیہ سے باہر انقلاب اسلامی کی امید رکھ سکتے ہیں۔ پس امام (رح) ایمان کی طاقت سے پُر، مضبوط ہاتھوں سے میدان عمل میں اترے اور انقلاب اسلامی کی فکری اور اعتقادی بنیادیں رکھنے کا آغاز کیا۔ اور اس راہ میں آپ کو حوزہ کے مفکرین کی فکری اصلاح کرنے کے لئے بہت زیادہ عجیب و غریب مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
یعنی ایک طرف سے انہیں ایسے طلاب کرام کو جو کہ دشمن کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے حامل تھے، اس موجودہ جامد فضا سے باہر نکالنا تھا کہ جس میں وہ غرق ہوچکے تھی اور دوسری طرف ایرانی قوم کو شاہ ایران اور اس کے سرداروں کی امریکہ کی سربراہی میں ان کی ظالمانہ طرز حکومت کے خلاف راہنمائی اور ہدایت کرنا تھی۔
امام خمینی (رح) قدامت پرستوں کے ان باطل تفکرات کو ایرانی قوم کے جنگی اور انقلابی میدان کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے لہذا انہوں نے حوزہ علمیہ کی اعتقادی بنیادوں کو اسلام کی اصلی اور انقلابی روح پر استوار کیا تا کہ کل کلاں، کسی عالم دین کو شاه ایران کے حکم پر اگر پھانسی بای دی جائے تو علماء کے لئے یہ بات ندامت اور شرمندگی کا باعث نہ بنے بلکہ اسلامی تہذیب اور ثقافت کے زندہ ہونے کی دلیل شمار کی جائے۔