اس دن (سن ۸ ہجری قمری) کو فتح مکہ ہوئی ہے اور رسولخدا (ص) مسجد الحرام آئے ہیں اور اصنام و اوثان کے توڑنے کا حکم دیا ہے۔ اس وقت خانہ کعبہ کے اطراف میں ۳۶۰/ بت نصب تھے۔
رسولخدا (ص) نے اس لکڑی کہ جو آپ کے جو ہاتھ میں سے ہر ایک کی طرف اشارہ فرمایا اور آیت «قل جاء الحق» (اسراء، ۸۰) پڑھی۔ سارے بت گرگئے۔ اس کے بعد رسولخدا(ص)نے خانہ کعبہ کی کنجی مانگی، دروازہ کھولا اور امر فرمایا کہ خانہ کعبہ کی دیوار پر بنی تمام تصویروں کو مٹادیا جائے۔ آپ کے حکم سے ساری تصویریں مٹادی گئیں۔ پھر آپ خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور نماز پڑھی اور باہر نکل آئے اور دروازہ کے دونوں بازووں کو پکڑ کر «لا الہ الا اللہ» پڑھا۔
قریش صف لگائے ہوئے خوفزدہ تھے کہ پیغمبر اکرم (ص)اب ان کے ساتھ کیا کریں گے۔ حضرت نے ان لوگوں کو خطاب کیا اکہ تم لوگ اپنے حق میں کیا خیال کررہے ہو؟ ان لوگوں نے جواب دیا: ہم لوگ خیر کا گمان کرتے ہیں۔ کریم بھائی اور کریم بھائی کا بیٹا اور تم اب قدرت رکھتے ہو۔ اس بات سے حضرت یوسف (ع) کے قصہ اور ان کے اپنے بھائیوں کو معاف کرنے کی داستان کی طرف اشارہ کیا۔ رسولخدا(ص) پر رقت طاری ہوا اور آنکھ نکل پڑے اور مکہ والوں سے گریہ کی آواز بلند ہوگئی۔ اس وقت آنحضرت (ص) نے فرمایا: میں وہی کہوں گا جو میرے بھائی یوسف نے کہا تھا۔ اور یہ کہکر ان کے جرم کو معاف کردیا۔ لیکن ان سے کہا: تم لوگ نبی کے برے پڑوسی تھے تم لوگ جھٹلاتے تھے، دور بھگاتے تھے، تم لوگوں نے نکال دیا اور سست کیا۔ اس کے بعد بھی تم لوگ راضی نہیں ہوئے یہاں تک تم لوگ میرے شہر میں آگئے اور مجھ سے قیال کرنے لگے ۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔
جب نماز کا وقت آگیا تو بلال کو حکم ہوا کہ جاؤ جا کر گلدستہ آذان پر آذان دو۔ انہوں نے آذان دی لیکن عکرمہ، خالد بن اسد اور ابوسفیان جیسے قریش کے لوگوں نے برا بھلا کہا۔ اس کے بعد قریش کے دیگر مرد رسولخدا (ص) کی بیعت کرنے آپ کے پاس آئے اور مسلمان ہوئے۔ منقول ہے کہ اسی دن حضرت امیر المومنین علی (ع) نے دوش پیغمبر (ص) پر قدم رکھے اور کعبہ کی چھت پر گئے اور بتوں کو زمین پر گرادیا اور توڑدیا اور ادب کی رعایت کرتے ہوئے خود کو کعبہ کے میزاب سے زمین پر اتر آئے۔
اسی دن (سن ۵۴۲ ہجری قمری) کو سید شریف ابوالسعادات ہبۀ الدین حسن معروف بہ «ابن شجری» بغدادی، نحوی، صاحب امالی و غیرہ کی وفات ہوئی ہے۔ یہ سید جلیل علمائے امامیہ کے اکابر اور مشائخ میں شمار ہوتے تھے۔
ماہ رمضان کے بارے میں امام خمینی (رح) فرماتے هیں:
سب سے بالاتر یہ ہے کہ انسان عمل کرے اور ماہ مبارک رمضان میں اپنی اصلاح کرے، ہمیں اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہم تزکیہ نفس اور تطہیر باطن کے محتاج ہیں اور آخری سانس تک ہم سب اسی کے محتاج ہیں۔ انبیاء بھی محتاج تھے، اولوالعزم انبیاء بھی محتاج ہیں لیکن ان لوگوں نے اپنی ضرورتوں کو سمجھ لیا ہے۔ اور اس کے بعد عمل کیا ہے۔ اور ہم اس اعتبار سے کہ ہم پر حجاب اور پردہ پڑا ہوا ہے ہم سمجھ نہیں سکے ہیں اور ہم نے اپنے فرائض پر عمل نہیں کیا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ یہ ماہ مبارک رمضان آپ کے لئے مبارک ہو اور اس کا مبارک ہونا اس معنی میں ہے کہ ہم سب عمل کریں، خود کو اخلاق الہی و آداب نبوی سے آراستہ کریں۔
ایک جگہ پر فرماتے ہیں : اگر یہی مسلمین ماہ مبارک رمضان میں خود کو اس طرح بنائے ہوتے اور خدا کی مہمانی کا حق ادا کردیئے ہوتا اور اپنا تزکیہ کرلئے ہوتے تو ظلم و جور برداشت نہ کرتے، اپنی عزت کا سودا نہیں کرتے اور اپنی کرامت کو واپس لے لیتے۔